سیاستکالم

آرٹیکل 6: فاروق نائیک کی استدعا اور چیف جسٹس کی مسکراہٹ

ماخام خٹک

اکیس مارچ کو سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے تحریک عدم اعتماد سے پہلے سیاسی جلسے روکنے کے لئے سپریم کورٹ بار کی درخواست پر سماعت کی۔ دوران سماعت فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ سپیکر نے آئین شکنی کی جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ جن پر آرٹیکل 6 لگا ہے پہلے ان پر عمل کرا لیں۔ آرٹیکل 6 سے متعلق فاروق ایچ نائیک کی بات پر چیف جسٹس مسکرا دیئے۔

اس سے ایک رات پہلے حامد میر کے پروگرام میں سپریم کورٹ بار کے سابق صدر کامران مرتضی نے بھی ایسی ہی بات کی تھی، شاید فاروق ایچ نائیک نے اسی بات کو ہی دہرایا ہو لیکن چیف جسٹس کی مسکراہٹ ایک بہت بڑے طنز کی طرف اشارہ کر رہی ہے اور وہ شاید پرویز مشرف کے آرٹیکل 6 کی جانب فاروق ایچ نائیک کی توجہ مبذول کرانا چاہ رہے تھے جن کو ان کی حکومت میں، جب وہ سینٹ کے چیئرمین تھے، جسٹس سیٹھ نے آرٹیکل 6 کے تحت سزا سنائی تھی۔

پہلے آتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ آرٹیکل 6 ہے کیا؟ اور قومی اسمبلی کے سپیکر پر تاخیری حربے استعمال کرنے پر ایپلیکیبل ہے کہ نہیں یا بہ الفاظ دیگر ان پر لاگو ہوتا ہے یا نہیں؟

پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت آئین کو توڑنے کو ریاست سے ‘سنگین بغاوت’ کا جرم قرار دیا گیا ہے، اس کی سزا پارلیمنٹ نے عمر قید یا موت تجویز کی ہے۔

آئین کے اس آرٹیکل کی 3 ضمنی دفعات ہیں:

1۔ کوئی شخص جو طاقت کے استعمال سے یا دیگر غیرآئینی ذریعے سے دستور کو منسوخ کرے یا تنسیخ کرنے کی سعی یا سازش کرے، تخریب کرے یا تخریب کرنے کی سعی یا سازش کرے، وہ سنگین غداری کا مجرم ہو گا۔

2۔ کوئی شخص جو شق ایک میں مذکورہ افعال میں مدد دے گا یا معاونت کرے گا، وہ بھی اسی طرح سنگین غداری کا مجرم ہو گا۔

3۔ مجلس شوریٰ یا پارلیمنٹ بذریعہ قانون ایسے اشخاص کے لئے سزا مقرر کرے گی جنہیں سنگین غداری کا مجرم قرار دیا گیا ہے۔

آئین کی اس شق پر عمل کرنے کے لیے بنائے گئے ’سنگین بغاوت‘ کی سزا کا قانون 1973 کی بھی تین ذیلی شقات ہیں۔

1۔ اس قانون کا نام ‘سنگین بغاوت کی سزا کا قانون 1973’ ہو گا۔

2۔ ایسا فرد جو آئین کو توڑنے یا ایسا کرنے کی کوشش یا سازش کرنے کے جرم کا مرتکب ہو، اس کی سزا عمر قید یا موت ہو گی۔

3۔ کوئی عدالت اس قانون کے تحت اس وقت تک کارروائی نہیں کر سکتی جب تک اس جرم کے واقعہ ہونے کی تحریری شکایت کسی ایسے فرد کی جانب سے متعلقہ سیشن عدالت میں دائر نہ کی جائے جسے وفاقی حکومت نے ایسا کرنے کے لیے اختیار دیا ہو۔

اب دیکھتے ہیں کہ آئین انیس تہتر قومی اسمبلی کے سپیکر کو کون سے آختیارات تفویض کرتا ہے۔

اسپیکر پاکستان کی قومی اسمبلی کا سب سے اعلیٰ عہدہ ہے۔ اسپیکر عوام کے منتخب نمائندگان پر مشتمل اجلاس کی صدارت کرتا ہے۔ اسپیکر صدر کی جانشینی کی فہرست میں دوسرے درجے پر ہوتا ہے یعنی صدر کی غیرموجودگی میں وہ قائم مقام کی حیثيت سے صدارت سنبھالتا ہے جبکہ رتبے کے اعتبار سے صدر، وزیر اعظم اور ایوان بالا یا سینٹ کے چیئرمین کے بعد چوتھے درجے پر ہوتا ہے۔

مزید برآں اسپیکر بیرون ممالک میں ایوان زیریں کا ترجمان ہوتا ہے۔ وہ غیرجانبدار ہوتا ہے۔ وہ قومی اسمبلی کو تحلیل کیے جانے کے بعد اگلے اسپیکر کے انتخاب تک ذمہ داریاں نبھاتا ہے۔ سال میں کم سے کم تین اجلاس ہونے چاہئیں اور آخری اجلاس اور ہونے والے اجلاس کے درمیان ایک سو بیس دن کا اضافہ نہ ہو۔

میرے خیال سے فاروق ایچ نائیک کی آرٹیکل 6 کی بات پر مسکراہٹ کا مطلب ہی یہ تھا کہ کیا قومی اسمبلی کے سپیکر کے خلاف ایسا ممکن ہے یا اگر ممکن ہے تو کیا اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ کھڑے کھڑے سپریم کورٹ میں چیف جسٹس سے استدعا کی جائے اور وہ آرڈر کر دیں یا پھر ان کی مسکراہٹ یہ ظاہر کر رہی تھی کہ آپ بھی تو سینٹ کے چیئرمین رہے ہیں اور حکومتی پارٹی کے سینٹ کے چیئرمین کی حیثیت سے آپ نے اپنے دور حکومت میں آرٹیکل 6 پر کیوں عمل درآمد نہیں کروایا؟

اقبال شاہ ایڈووکیٹ پیشے کے لحاظ سے وکیل اور سندھ ہائی کورٹ میں پریکٹس کرتے ہیں۔ شعر و ادب سے بھی علاقہ ہے اور ماخام خٹک کے قلمی نام سے شاعری کے علاوہ مختلف اخبارات و رسائل کے لئے بھی لکھتے ہیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button