”لاؤڈ سپیکر کا ظالمانہ استعمال” اللہ ہمیں ظالم اور مظلوم بننے سے محفوظ رکھے!
ڈاکٹر سردار جمال
”لاؤڈ سپیکر کے غیرضروری اور ظالمانہ استعمال سے اجتناب کیجیے۔ والیوم کو کم سے کم کر کے اپنے ارد گرد طلباء، بیماروں اور پڑوسیوں کا خیال رکھیں، ایسا نہ کرنا لاؤڈ سپیکر کا غلط استعمال کہلائے گا۔”
مفتی تقی عثمانی مدظلہ کے محولہ بالا فتوے کے مطابق یہ لاؤڈ سپیکر کا ظالمانہ استعمال ہو گا۔ اللہ ہمیں ظالم اور مظلوم بننے سے محفوظ رکھے۔ نیک کام غلط طریقے سےکیا جائے تو فقہاء اور اصولیین اس کیلئے حسن لذاتہ، قبیح لغیرہ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ الحمد للہ اب تو کافی حد تک آگاہی پیدا ہو چکی ہے۔
کچھ عرصہ قبل دوران تراویح ہر مسجد میں قرآن لاؤڈ سپیکر پر تیز والیوم کے ساتھ سننے سنانے کا رواج تھا۔ اب مثلاً ایک گاؤں میں تیس مساجد تھیں تو فاصلہ کم ہونے کے باوجود بھی ہر مسجد میں لاؤڈ سپیکر پر قرآن سنایا جاتا تھا۔ سنا ہے یہ طریقہ اب بھی بعض مقامات میں رائج ھے جو نامناسب ہے۔
یہ اس لئے کہ آواز آپس میں ٹکرانے کے باعث کچھ بھی سمحھ نہیں آ رہا ہوتا ہے۔ قرآن کا ادب یہ ہے کہ جب تلاوت شروع ہو جائے تو خاموشی سے سن لیا کریں جو اس صورت میں ممکن نہیں۔ مسجد کے قرب وجوار میں رہنے والا ایک مریض تکلیف میں ہے یا کوئی بیت الخلاء میں ہے، ان تمام صورتوں میں یہ اسلام اور قرآن کی کون سی خدمت ہو گی؟ اوپر سے کوئی اچھا خاصا مسلمان شکایت کرنا چاہے تو فتوے کا بھی ڈر ہوتا ھے اور یوں رفتہ رفتہ ہمارے اس عمل سے وہ دین سے دور ہونا شروع ہو جاتا ہے جس کے بارے میں قیامت کے دن ھم سے پوچھا جائے گا۔
آذان کے علاوہ مسجد کے ہال اور صحن میں موجود نمازیوں تک آواز پہنچانے کا انتظام و اہتمام کیجیے اور بس! ورنہ بقول مفتی تقی عثمانی کے یہ لاؤڈ سپیکر کا ظالمانہ اور ناجائز استعمال ہو گا۔ ہمارا کام تو بڑی نرمی اور حکمت و دانش کے ساتھ دین کی طرف لوگوں کو راغب کرنا ھے، متنفر کرنا نہیں۔
حضرت عمر کے دور خلافت میں حضرت عائشہ نے حضرت عمر کو ایک صحابی کیخلاف شکایت درج کرائی کہ وہ میرے پڑوس میں رہتے ہیں اور بلند آواز میں تلاوت کرتے ہوئے میرے آرام میں دخیل ہوتے ہیں۔ حضرت عمر نے سختی سے ان کو ایسا کرنے سے منع کیا لہذا کوشش کرنی چاہیے کہ ہمارا کوئی بھی عمل کسی کی دل آزاری کا باعث نہ بنے۔
”میں 1988 سے 1992 تک عشاء کی نماز کے بعد تیز والیوم کے ساتھ اپنی مسجد سے درس قرآن دیتا رہا ہوں۔ اب نادم ہو کر سوچتا ہوں میں نے جہالت میں کتنے مریضوں، طالب علموں اور قریب رہنے والوں کی دل آزاری کی ہو گی۔ یقیناً یہ میں نے اس وقت بہت بڑا جرم کیا ہے جس پر اللہ اور اس کی مخلوق سے معافی کا طلبگار ہوں۔ کاش! کوئی اس وقت مجھے سمجھا دیتا اور میں اس جرم سے بچ جاتا۔ آپ سے التماس ہے کہ اس جرم سے بچیے ورنہ میری طرح آپ بھی پچھتائیں گے اور ازالہ کی کوئی بھی صورت ممکن نہ ہو گی۔
آج کل سبزی فروش اور دیگر گلی کوچوں میں لاؤڈ سپیکر کا جو جاہلانہ استعمال کرتے ہیں وہ بھی ایک المیہ ہی ہے۔ گاؤں محلے کے لوگ ان کو بہ آسانی اس حرکت سے روک سکتے ہیں۔ انتظامیہ خواب خرگوش کی نیند سو رہی ہے اور عوام الناس بے چارے ہر طرف سے ایک اذیت اور کرب میں مبتلا ہوتے جا رہے ہیں۔۔ خدا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں….. اللہم ارحمنا۔”
مندرجہ بالہ سطور "لاؤڈ سپیکر کے ظالمانہ استعمال” کے بارے پروفیسر اظہارالحق صاحب کی وال سے نقل کر چکا ہوں۔ پروفیسر صاحب ایک نامی گرامی ماہر تعلیم کے ساتھ ساتھ ایک جیّد عالم دین بھی ہیں۔ آپ ضلع صوابی کے نامی گرامی مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ باپ دادا کے زمانے سے لے کر اب تک ملک کے ہر حصّے سے آئے ہوئے اسلامی علوم کے پیاسے طلبہ ان کی درگاہ سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔ بے شمار خوش نصیبوں میں سے ایک میں ناچیز بھی حضرت کا شاگرد رہ چکا ہوں بلکہ اب تک آپ سے استفادہ کر رہا ہوں۔
پروفیسر صاحب ایک حقیقت پسند اور سائنسی عالم دین ہیں جو قاضی فضل اللہ، شہید ڈاکٹر فاروق اور محترم ڈاکٹر ذاکر نائیک کی طرح قرآن و حدیث کے سائنسی دلائل کے ساتھ تشریح اور وضاحت کر رہے ہیں جو کہ اس سائنسی دور میں مسلمانوں کے لئے بہت بڑا تحفہ ہے۔
پروفیسر صاحب شروع سے لے کر اب تک دین اسلام کا زبانی اور قلمی جہاد کر رہے ہیں۔ اس بارے آپ کے کئی کتب چھپ چکی ہیں۔ جب سے سوشل میڈیا کا زمانہ آیا ہے تو باقاعدگی سے کرنٹ افیئر اور موجودہ درپیش مسائل اور ان کے حل کے بارے میں مضمون لکھ رہے ہیں۔
ہمارے ہاں چونکہ مسائل کا انبار لگا ہوا ہے جن میں سے ایک مسلہ بلکہ سنگین مسلہ لاؤڈ سپیکر کا بے جا اور ظالمانہ استعمال کا بھی ہے اور بدقسمتی یہ ہے کہ رمضان آنے سے ایک مہینہ پہلے بعض مولوی صاحبان لاؤڈ سپیکر کا زوردار استعمال شروع کر دیتے ہیں جو کہ اردگرد رہنے والوں کے لئے وبال جان کے علاوہ اور کجھ نہیں ہوتا ہے۔
استاد محترم پروفیسر اظہارالحق نے لاؤڈ سپیکر کے اس طرح استعمال کو لاؤڈ سپیکر کا ظالمانہ استعمال ثبوتوں کے ساتھ کہا ہے لہٰذا حکومت کو اس بارے ٹھوس اقدامات اٹھانے چاہئیں اور اس مٹی کے باسیوں کو لاؤڈ سپیکر کے اس ظالمانہ استعمال سے بے چارے عوام کو چھٹکارا دلانا چاہیے۔