دو دن میں دو خواجہ سرا ”مڑخ” کے ہاتھوں قتل، کون ہوتا ہے یہ ”مڑخ”؟
انور زیب
ہسپتال کے باہر سٹریچر پر خون میں لت پت پڑی یہ لاش خواجہ سرا مانو کی ہے۔ جس کے آس پاس کوئی رشتہ دار نہیں، نہ ماں ہے نہ بہن اور نہ ہی کوئی بھائی۔۔ اس لاش کے وارث صرف پشاور میں رہائش پذیر خواجہ سرا ہی ہیں۔ لاش پر رونے والے بھی خواجہ سرا ہیں اور اس لاش کے کفن دفن کا بندوبست بھی خواجہ سراء ہی کریں گے۔
مانو کا تعلق بٹ خیلہ کے دور دراز کسی گاؤں سے تھا جس کو پشاور کے ایک نامعلوم مقام پر دفنایا گیا۔ رشتہ داروں نے لاش گاؤں لے جانے سے بہتر یہ سمجھا کہ اسے پشاور میں ہی دفنا دیا جائے۔
ناصر عرف مانو کو گذشتہ روز پشاور کے ایک گنجان آباد علاقہ جھنگی محلہ میں اس کے سابق دوست نے قتل کر دیا۔ پولیس کے مطابق مانو کو مبینہ قاتل ثناء اللہ کی شادی پر اعتراض تھا جو قتل کی وجہ بنا۔
ایسا ہی ایک واقعہ جمعرات کو مردان میں بھی پیش آیا تھا جہاں فائرنگ کے نتیجے میں ایک خواجہ سرا قتل اور ایک زخمی ہو گیا تھا۔ دونوں واقعات کی ایف آئی آر متعلقہ تھانوں میں درج کر دی گئی ہیں اور تفشیش جاری ہے۔ اس سے پہلے ایبٹ آباد میں بھی خواجہ سراؤں پر فائرنگ کا ایک واقعہ پیش آیا تھا۔
خواجہ سراء مانو کی موت کی خبر پھیلی تو حسب معمول لوگوں کو شک ہونے لگا کہ کسی ”مڑخ” نے قتل کیا ہو گا۔ اب ”مڑخ” کون ہے اور اس نے کیوں جوانی سے بھرپور ایک انسان کو یوں قتل کیا؟
سماجی کارکن اور خواجہ سراؤں کے حقوق کیلئے کام کرنے والے تیمور کمال کے مطابق گزشتہ چھ سالوں میں خیبر پختونخوا میں خواجہ سراؤں کے قتل کے 75 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں اور قتل کے بعد زیادہ تر الزامات ”مڑخ” پر ہی لگے ہیں۔ ان کے مطابق ”مڑخ” اور بوائے فرینڈ ایک ہی چیز ہوتی ہے، ”یہ مڑخ نام خواجہ سراؤں کا ایجاد کردہ ہے، دو قسم کے مڑخ ہوتے ہیں: ایک مالی طور پر مضبوط اور ایک مالی طور پر کمزور، مالی طور پر مضبوط مڑخ خواجہ سراء پر پیسے خرچ کرتا ہے، اس کے لئے نئے کپڑے، جیولری وغیرہ خریدتا ہے اور اس کی رہائش کا بندوبست بھی کرتا ہے، معاملات تب خراب ہوتے ہیں جب مڑخ اپنے خواجہ سراء کو کسی دوسرے شخص کے ساتھ دوستی کرتے ہوئے دیکھتا ہے، ایسا اکثر ڈانس پارٹیوں میں دیکھنے کو ملتا ہے، جب خواجہ سرا کسی دوسرے شخص کو زیادہ توجہ دیتا ہے تو پہلے سے موجود مڑخ کو اس پر غصہ آتا ہے اور طیش میں آ کر اس پر تشدد یا اسے قتل کر دیتا ہے۔”
تیمور کے مطابق یہ بھی بالکل غیرت کے نام پر قتل جیسے واقعات ہیں، ”دوسرا وہ شخص ہوتا ہے جس کے پاس پیسے نہیں ہوتے اور کسی خواجہ سراء سے دوستی کر کے اس سے پیسے بٹورتا ہے، دونوں صورتوں میں نقصان صرف خواجہ سراء کا ہے، جب خواجہ سرا ڈانس پارٹیوں کی کمائی بند کر دیتا ہے تو یا تو قتل کر دیا جاتا ہے یا تشدد کا نشانہ بنا دیا جاتا ہے۔”
چار سال پہلے ایسا ہی ایک واقعہ پشاور کے علاقہ باڑہ گیٹ میں پیش آیا تھا۔ پولیس نے ناکہ بندی کے دوران ایک رکشہ کی تلاشی لی۔ تلاشی کے دوران رکشہ میں پڑے شاپینگ بیگز سے انسانی اعضاء برامد ہوئے۔ تحقیقات سے پتہ چلا کہ خواجہ سراء نازو کو بوائے فرینڈ یعنی مڑخ نے قتل کر کے ٹکڑے ٹکڑے کیا ہے اور واردات کو چھپانے ان ٹکڑوں کو کسی نہر میں پھیکنے کیلئے لے کے جا رہے ہیں۔ بعد میں ملزم نے اعتراف کیا اور کہا کہ قتل ہونے والے خواجہ سراء پر اس نے لاکھوں روپے خرچ کئے تھے تاہم اب وہ کسی اور سے دوستی کر رہا تھا جو اس سے براشت نہیں ہوا۔
نازو سے پہلے شہر کے نواحی علاقہ ورسک روڈ پر ہاجرہ نامی ایک خواجہ سراء کو بھی دوستی نہ کرنے کی پاداش میں قتل کیا گیا تھا۔ تاہم ناقص تفشیش کے باعث کیس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
خواجہ سراؤں کو تحفظ کیسے دیا جائے اس حوالے سے تیمور کمال کا کہنا تھا کہ عوامی نیشنل پارٹی کے دور حکومت میں جب خواجہ سراؤں کے ساتھ مختلف تقاریب میں پرتشدد واقعات سامنے آئے تو اس وقت کی حکومت نے پولیس کے ساتھ مل کر خواجہ سراؤں کو کسی بھی تقریب میں جانے سے پہلے متعلقہ تھانے میں اطلاع دینا لازمی قرار دیا تھا۔ جس سے کافی حد تک خواجہ سراؤں پر حملے کم ہوئے تھے، اگر کوئی واقعہ پیش بھی آتا تو پولیس کو تحقیقات میں آسانی ہوتی کیونکہ انہیں پہلے سے پتہ ہوتا تھا کہ خواجہ سراؤں کو کس نے بلایا تھا اور کہاں پر بلایا تھا۔
پشاور ہائی کورٹ کے سینئر وکیل گل رحمان کے مطابق خواجہ سراؤں کے قتل میں ملوث اکثر لوگوں کو سزا اس لئے نہیں ہوتی کہ کوئی گواہ بننے کیلئے تیار نہیں ہوتا، ”اگر کیس کی صحیح طریقہ سے پیروی کی جائے تو مجرموں کو سزا ہو سکتی ہے۔”
ان کا کہنا تھا کہ چند سال پہلے خواجہ سراء علیشاہ کو قتل کرنے والے ملزم کے کیس میں کافی پیش رفت ہو رہی ہے، جلد ملزم کو سزا مل جائے گی۔ واضح رہے علیشاہ کو قتل کرنے والا ملزم بھی ان کا بوائے فرینڈ یا مڑخ تھا۔
ٹی این این نے اس حوالے سے پشاور ہی کے ایک ایسے ہی شخص، عادل (فرضی نام) سے بات کی ہے جنہوں نے کئی سال ایک خواجہ سرا کے ساتھ ایک کمرے میں بطور بوائے فرینڈ یا مڑخ گزارے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہر کوئی کسی نہ کسی کو دوست رکھنا چاہتا ہے، بعض لوگوں کو لڑکیوں سے دوستیاں اچھی لگتی ہیں تو کوئی کسی لڑکے کو پسند کرتا ہے، ”ہم خواجہ سراؤں کو پسند کرتے ہیں اور ہمیں وہ زیادہ پرکشش نظر آتے ہیں۔”
ان کا مزید کہنا تھا کہ لازمی نہیں کہ ہر خواجہ سراء پر مڑخ پیسے خرچ کرے، ایسے بھی لوگ ہیں جن پر خواجہ سراء پیسے خرچ کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایسے لوگوں کو جانتے ہیں جنہوں نے گھربار چھوڑ کر کسی خواجہ سراء کے ساتھ سکونت اختیار کی ہے۔ خواجہ سراوں کے قتل کے بارے میں انہوں نے کہا کہ زیادہ تر خواجہ سراؤں پر حملے اس قسم کی دوستیوں کی وجہ سے ہو رہے ہیں، "خواجہ سراء معصوم لوگ ہوتے ہیں، ان کے کسی کے ساتھ زمین پر تنازعات تو نہیں ہوتے جو کہ قتل کا سبب بنیں۔”
کیا مڑخ یا بوائے فرینڈ خواجہ سراء کے ساتھ جنسی تعلقات بھی قائم کرتے ہیں؟ اس بارے میں عادل کا کہنا تھا کہ بالکل قائم کرتے ہیں اس لئے تو دوستی کرتے ہیں اور ظاہر ہے کہ اپنے پارٹنر کو جب آپ کسی دوسرے کے ساتھ دیکھو گے تو غصہ تو آئے گا۔
ٹرانسجینڈر ایسوسی ایشن کے صوبائی صدر آرزو نے بتایا کہ ابتدائی معلومات کے مطابق مانو کو مڑخ یا بوائے فرینڈ نے قتل کیا ہے۔ ان کے مطابق خواجہ سراؤں کے قتل اور حملوں میں سابق بوائے فرینڈز یا مڑخ ملوث ہوتے ہیں تاہم بعض اوقات غیرت کے نام پر بھی قتل کئے جاتے ہیں، ”رشتہ دار یا گھر والے نہیں چاہتے کہ وہ اپنے بچوں کو ڈانس کرتے دیکھیں۔”
آرزو کے مطابق خواجہ سراء مڑخ اس لئے رکھتے ہیں کہ برے وقتوں میں ان کے کام آئیں، یہ ہم لوگ معاشرے سے الگ تھلگ رہتے ہیں اور ہمیں اس قسم کے لوگوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔