باجوڑ میں اقلیتی برادری کے نوجوان سرکاری ملازمتوں سے محروم
حنیف اللہ
27 سالہ نعمان مسیح گزشتہ 10 سالوں سے ضلع باجوڑ میں رہائش پذیرہے۔ نعمان مسیح پرائیویٹ طورپر ڈیلی ویجز پرصفائی کا کام کرتے ہیں۔ نہ صرف اپنا بلکہ اپنی والدہ اوردو بھائی اور چاربہنوں کا پیٹ بھی پالتے ہیں۔ نعمان نے دو سال قبل محکمہ تعمیرات (بلڈنگ) میں سویپر کے خالی پوسٹ کیلئے درخواست دی تھی ، دو سال تک وہ دربدر کی ٹھوکریں کھاتا رہا اور دو سال سے اسکی درخواست اسی محکمے میں پڑی ہوئی ہے لیکن تاحال سویپر کے پوسٹ پر بھرتی نہیں کی گئی اور یہ اۤسامی گذشتہ دو سالوں سے خالی پڑی ہوئی ہے۔
نعمان مسیح کا کہنا ہے کہ وہ تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے لیکن غربت کیوجہ سے تعلیم جاری نہ رکھ سکے۔ وہ کہتے ہے کہ روزگار کے سلسلے میں ضلع باجو ڑمنتقل ہوئے تاہم یہاں پر بھی پرائیویٹ ڈیلی ویجز پر ہی اکتفا کرنا پڑا اور سرکاری نوکری کےحصول کیلئے کھبی ایک محکمہ اور کبھی دوسرے محکمے میں درخواست دیتے ہیں لیکن کامیابی نہیں ملی۔ غربت کی فریاد کرتے ہوئے ہاتھ میں جاڑو لئے نعمان مسیح پُرامید بھی ہے کہ ایک دن اس کو ضرور اپنا حق ملے گا۔ نعمان مسیح نے جب شادی کیلئے ایک گھر میں رشتہ بھیجا تو گھر والوں نے رشتہ اسلئے نہیں دیا کہ اس کے پاس سرکاری نوکری نہیں تھی اور انہوں نے انکار کرکے یہ بتادیا کہ نعمان اپنے اۤپ کو سنبھالے گا یا بیوی کو ۔
اس حوالے سے جب محکمہ تعمیرات(بلڈنگ ڈویژن) سے معلومات حاصل کرنے کیلئے پوچھا گیا تو ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ہم نے دو سال پہلے ایک سادہ کاغذ پر اشتہار جاری کیا تھا لیکن ہمارا ایک ملازم جو پشاور سے تعلق رکھتا تھا ریٹائرڈ ہوا اور اُس نے یہ زور لگایا تھا کہ اس خالی پوسٹ پر میرا بیٹا بھرتی کریں تاہم وہ نان لوکل تھا اور ہم یہ چاہتے تھے کہ اس پوسٹ ایک مقامی نان مسلم بھرتی ہو اور پالیسی بھی یہی ہے۔ مذکورہ ریٹائرڈ ملازم کی جانب سے سفارشوں کی بھرمار کیوجہ سے یہ مسئلہ لٹکا ہوا تھا تاہم ہمیں تین ماہ پہلے اپروول مل گیا ہے اور ہم اس پر بہت جلد ایک نان مسلم مینارٹی کا بندہ بھرتی کرینگے لیکن تاخیر اس وجہ سے ہوئی کہ بلدیاتی انتخابات کیوجہ سے بھرتیوں پر پابندی ہے چند دنوں میں اشتہار شائع کرکے ایک مقامی نان مسلم کو بھرتی کرینگے۔
ایک اور مسیحی نوجوان 25 سالہ رستم مسیح روزگار کے سلسلے میں چار سال پہلے سرگودھا سے باجوڑ شفٹ ہوگئے لیکن وہ بھی اب تک سرکاری نوکری حاصل نہ کرسکا۔ رستم مسیح کبھی ایک پرائیویٹ لیٹرین کے دروازے پر بیٹھ کر مزدوری کرتے ہیں اور کبھی دوسرے پر ۔ وہ موجودہ وقت میں اپنے بہنوئی کے گھر میں اپنے بیوی بچوں کیساتھ رہائش پذیر ہے۔
ضلع باجوڑ میں اقلیتی برادری کے لوگ بھرتیوں میں نظر انداز ہورہے ہیں اور محکمہ ابتدائی وثانوی تعلیم کے زیر اہتمام بھی کچھ عرصہ قبل کلاس فور بھرتیوں میں اقلیتی برادری کے لوگوں کو نظر انداز کیاگیا ۔ محکمہ تعلیم باجوڑ میں 205 کلاس فور کو بھرتی کیاگیا لیکن ان میں اقلیتی برادری کا ایک بھی بندہ شامل نہیں تھا۔
ضلع باجوڑ میں 160 سے زائد اقلیتی برادری کے لوگ مقیم ہیں اور گزشتہ چالیس سالوں سے یہاں پر رہتے ہیں جن میں اکثریت مسیحی برادری کی ہیں جبکہ دو ہندوں خاندان بھی یہاں پر مقیم ہیں۔ مینارٹی کے لوگ 1980 سے قبل روزگار کے سلسلے میں باجوڑ منتقل ہوئے اور گذشتہ چالیس سالوں سے یہاں پر رہائش پذیر ہیں۔
باجوڑ مینارٹی ایسوسی ایشن کے صدر پرویز مسیح کا کہنا ہے کہ جب بھی کوئی بھرتی اۤتی ہے تو اس میں مینارٹی کا ذکر نہیں کیا جاتا۔ محکمہ ایجوکیشن میں حالیہ بھرتیوں کے لئے ہونیوالے اشتہار میں اقلیت کا ذکر ہی نہیں تھا اور جب ہمیں پتہ چلا تو اشتہار کا ٹائم بھی ختم ہوا تھا کیونکہ کلاس فور بھرتیوں کیلئے اشتہار ایک ایسے اخبار میں دیا گیا تھا جو بہت کم لوگ پڑھتے ہیں ۔ اگر محکمے ہمیں بھرتی کرنا چاہتے ہیں تو ہمارے چرچ پر اشتہار لگائے تاکہ سارے مینارٹی کو پتہ چلیں اور وہ بھرتی کیلئے درخواستیں دیں۔
محکمہ تعلیم باجوڑ نے گزشتہ سال 205 افراد کو کلاس فور کے سیٹوں پر بھرتی کیا لیکن اس میں ایک بھی اقلیتی برادری کا بندہ نہیں تھا، حکومتی قانون کے مطابق 205 بھرتیوں میں کم از کم 9 افراد کو اقلیتی برادری سے لینا چاہئے تھا ۔
رائٹ ٹو انفارمیشن (آرٹی آئی) ایکٹ کے تحت محکمہ تعلیم ضلع باجوڑ سے حاصل کی گئی معلومات کے مطابق حالیہ چند مہینوں میں محکمہ تعلیم ضلع باجوڑ نے205کلاس فور بھرتی کروائے لیکن اس میں نہ صرف اقلیتی برادری کو نظر کیاگیا بلکہ خصوصی افراد کو بھی نظر انداز کیاگیا۔
باجوڑ مینارٹی ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری جمیل بسمل جوکہ ہندو برادری سے تعلق رکھتے ہیں کا کہنا ہے کہ حکومت نے محکمہ تعلیم کے ٹیچنگ کیڈر اور دیگر محکموں میں اقلیت کیلئے اۤسامیاں مختص کی ہیں لیکن یہاں باجوڑ میں رہنے والے زیادہ تر اقلیتی برادری کے لوگ کم یافتہ ہیں اور ان کو کلاس فور جیسے سیٹوں میں حصہ دینا چاہئے ۔ اُس کا کہنا ہے کہ باجوڑ میں رہنے والے اقلیت کو ماضی میں بھی نظر انداز کیاگیا ہے اور حکومت کو ماضی میں رہ جانے والے شارٹ فال پر بھی توجہ دینی چاہئے۔
اس حوالے سے جب محکمہ تعلیم باجوڑ کے ایک ذمہ دار سے رابطہ کیاگیا تو اُس کا کہنا تھا کہ اقلیتی برادری کے لوگوں نے بھرتی کیلئے درخواستیں نہیں دی تھی اوریہ بھی بتایا کہ ہم نے یہ اۤسامیاں اراضی مالکان کو دینی تھی کیونکہ اراضی مالکان نے سکولوں کیلئے مفت اراضی دی تھی تاہم جب اس نامہ نگار نے اخبار اشتہار کو دیکھا تو اُس میں سرے سے اقلیتی برادری کا ذکر موجود نہیں تھا جبکہ اس کے علاوہ ایسے سکول بھی تھے جو سرکاری اراضی میں بنے تھے۔
اس حوالے سے جب ڈائریکٹر یٹ اۤف ایجوکیشن ضم شدہ اضلاع کے ایک اۤفیسر سے رابطہ کیاگیا تو اُس نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ حالیہ کلاس فور بھرتیوں میں قوائد وضوابط کی خلاف ورزیاں کی گئی ہیں اور ڈسٹرکٹ ایجوکیشن اۤفیسر باجوڑ نے اپنی بیوی اور بھائی کو بھی کلاس فور کے سیٹوں پر بھرتی کیا ہے جس پر اس کیخلاف چارج شیٹ جاری کیاگیا ہے۔
دستاویزات کے مطابق محکمہ تعلیم باجوڑ نے سال 2021 میں 13 سویپرپوسٹوں پربھی بھرتیاں کی لیکن ان میں مینارٹی کا ایک بھی بندہ نہیں تھا ۔ مینارٹی ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری جمیل بسمل کا کہنا ہے کہ سویپر پوسٹوں پر ہمارے لوگوں کو بھرتی کرنا چاہئے مگر محکمہ تعلیم باجوڑ نے ہمارے مینارٹی کے لوگوں کو اسی میں بھی نظر انداز کردیاہے۔
ضم شدہ اضلاع میں مینارٹی کے لئے ہر محکمے میں بھرتیوں کے وقت پانچ فیصد کوٹے پر عملدراۤمد یقینی بنانے کیلئے باقاعدہ لیٹرز ہوچکے ہیں جس میں ایک لیٹر فاٹاسیکرٹریٹ سے 8 دسمبر2017 کو ہواتھا کہ وفاقی حکومت کے واضح احکامات کی روشنی میں پانچ فیصد کوٹے پر سختی سے عملدراۤمد یقینی بنایا جائے ۔ اس کے بعد پولیٹیکل ایجنٹ نے چند دن بعد یعنی 27 دسمبر 2017 کو ضلع باجوڑ کے تمام محکموں کو خط ارسال کیاتھا کہ وفاقی حکومت کے احکامات کی روشنی میں پانچ فیصد کوٹے پر لازمی عملدراۤمد یقینی بنایا جائے تاہم اب بھی زیادہ تر محکموں نے اس پرکوئی عمل نہیں کیا ہے اور محکمہ ابتدائی وثانوی تعلیم نے تو اسی نوٹیفکیشن کو مکمل نظر انداز کردیاہے اور کلاس فور سیٹوں میں مینارٹی کے حق پر ڈاکہ ڈال دیاہے۔