پودے لگائیں زندگی بچائیں، فطرت کا یہ ہم پہ قرض ہے
ساجد ٹکر
بہار کا موسم ہے۔ ہر طرف ہریالی پھیلی ہوئی ہے۔ شگفتگی ہے کہ نکہتیں پھیلا رہی ہیں اور پژمردہ طبیعتوں میں جان پڑ رہی ہے۔ پودے پھیل رہے ہیں اور درختوں پر سبز پتوں کے رنگ چڑھ رہے ہیں۔ پھول ہیں کہ ہر سو کھل رہے ہیں اور خوشبوئیں ہیں کہ فضاؤں میں بکھرتی جا رہی ہیں۔ ہر طرف حسن، رنگ اور نور کا سماں بندھ رہا ہے۔
بہار کے موسم میں سیانے کہتے ہیں کہ بے جان زمین میں جان آ جاتی ہے اور اپنے اندر چھپی خوبصورتی کو پودوں، پھولوں اور نکہتوں کی شکل میں آشکار کرا دیتی ہے۔ زمین سبزے کا غلاف اوڑھ کر خوبصورت قالین کا روپ اختیار کر لیتی ہے اور زندگی کی علامات ظاہر ہو جاتی ہیں۔ اس لئے تو کہتے ہیں کہ بہار ہی وہ موسم ہے جس میں جذبات ابھر آتے ہیں اور خوبصورتی انسان کو للکار بیٹھتی ہے۔ انسان مچل جاتا ہے اور غمزدہ دل بھی چند لمحوں کے لئے ہی سہی لیکن خوشی پا لیتے ہیں اور اداس چہرے کھل اٹھتے ہیں۔
یہ انعام فطرت کی طرف سے ہے کیونکہ کائنات انسان کے لئے ہے اور اس کے آرام کا ہر سامان اس میں باہم موجود ہے۔ کائنات میں پھیلی خوبصورتی مختلف فطری مظاہر کی وجہ سے ہے۔ کہیں پہاڑوں کی وجہ سے زینت بنی ہوئی ہے تو کہیں دریا شور مچا رہے ہیں، کہیں سرسبز میدان انسان کی نظروں کو خیرہ کر دیتے ہیں تو کہیں موجزن سمندر انسان کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتے ہیں۔ کہیں لامتناہی صحرائیں انسان کو بے بس محسوس کراتی ہیں تو کہیں بارشیں اور ہوائیں اس کو مسحور کرا دیتی ہیں۔ الغرض کائنات میں ہر سو خوبصوتی پھیلی ہوئی ہے۔
لیکن جب بہار آ جاتا ہے تو ان تمام مظاہر کی خوبصورتی بڑھ جاتی ہے اور انسان ہواؤں میں اڑنے لگتا ہے۔ بہار کی خوبصورتی پودوں، پھولوں اور درختوں کی مرہون منت ہے۔ اگر یہ سب نہیں اور بہار آ بھی جائے تو کس کام کا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ نباتات ہی کائنات کے مظاہر ہیں جن سے کہ خوبصورتی جھلکتی ہے۔
پودے ہوں، یا درخت، سبزہ ہو یا پھول، ایک طرف خوبصورتی کے اسباب ہیں تو دوسری جانب انسانی زندگی کے لئے بھی انتہائی اہم ہیں۔ ایک طرف ان کی وجہ سے فضائیں معطر اور مناظر خوبصورت ہوتے ہیں تو دوسری جانب ان کہ وجہ سے انسان کو تازہ ہوا بھی ملتی ہے۔
انسان عجلت پسند ہے، تھکتا بھی جلدی ہے اور چیزوں سے اکتاہٹ بھی جلدی ہو جاتی ہے لیکن سبزہ ایک ایسی چیز ہے جس سے انسان کا دل کبھی نہیں بھرتا۔ یہ ہمیشہ انسان کو راحت اور سکون بخشتا ہے۔ آج کے مادی اور تیز دور میں انسان کو سب سے زیادہ ضرورت سکون کی ہے اور قدرت نے نباتات، سبزے اور پودوں پھولوں میں یہ سب کچھ رکھا ہے۔ کوئی تھکا انسان اگر چند لمحوں کے لئے کہیں کسی چمن، گلزار یا باغ میں گزارے تو اس کی طبیعت تازہ ہو جاتی ہے اس لئے تو ڈپریشن اور انزائٹی کے مریضوں کو ماہر نفسیات سیر کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔
انسان مگر مادی ضروریات کے لئے اتنا مگن ہو گیا ہے کہ اس کو ان چیزوں کے لئے فرصت ہی نہیں رہی۔ دوسری جانب انسان کی ضروریات ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہی ہیں جن کی تکمیل کے لئے انسان فطری خزانوں کا بے دریغ اور بے رحمانہ استعمال کر رہا ہے۔ انسان اپنے گھر کی خوبصورتی اور اپنے ذاتی سکون کے لئے دنیا کی خوبصورتی کے پیچھے پڑا ہے اور جنگلوں کو صاف کر رہا ہے۔
درخت بلوغت تک پہنچنے میں سال لیتے ہیں لیکن انسان ایک ہی وار سے جنگلوں کے جنگل گرا دیتا ہے جس کے نتیجے میں ایک جانب ماحولیاتی آلودگی بڑھ رہی ہے اور کلائمیٹ چینج کے خطرے سے اس گولے کا سامنا ہے تو دوسری جانب فطری مظاہر کی خوبصورتی بھی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔
انسان اپنے لالچ کی وجہ سے اندھا ہو رہا ہے اور زندگی کے لئے ضروری مظاہر کی بیخ کنی کر رہا ہے۔ مکانات، نئے نئے قصبے اور شہر کے شہر ہیں کہ آباد ہو رہے ہیں، کھیتوں کی جگہ سیمنٹ اور سریہ کے جال اور عمارتیں بن رہی ہیں۔ درختوں کی جگہ بڑے بڑے بل بورڈز لگ رہے ہیں۔ ہم دیکھیں تو بہت تیزی کے ساتھ قابل کاشت زمین بھی سکڑ رہی ہے کیونکہ آبادی بغیر کسی منصوبے کے بڑھ رہی ہے اور ایسے ہی بغیر کسی منصوبے کے قصبے، ہاوسنگ سوسائٹیز اور شہر بن رہے ہیں۔
درختوں کو تو گرا دیتے ہیں سینکڑوں کی تعداد میں لیکن ان کی جگہ ایک پودا بھی لگانے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ ہم نے شروع میں جس خوبصورتی کا ذکر چھیڑا تھا، یہ سب صرف اور صرف ان پودوں، درختوں اور پھولوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔ خدانخواستہ کل کلاں اگر یہ نہ رہیں تو یہ خوبصورتی بھی غائب ہو جائے گی اور جس طرح آج ہم کچھ پرانی تہذیبوں، اقوام، کچھ جانور جیسے کہ ڈائنو سار وغیرہ کو صرف کتابوں اور فلموں میں دیکھتے ہیں، اسی طرح ان پودوں، درختوں اور پھولوں کو بھی بس افسانوں میں ہی دیکھ سکیں گے۔
انسان کو اگر کائنات کا شہزادہ کہا جاتا ہے تو صرف اس لئے کہ قدرت نے اس کو عقل، دانش اور فہم کی دولت سے نوازا ہے۔ اس کو اس دنیا میں رہنے کے لئے اختیار دیا گیا لیکن ساتھ ہی انسان کی کچھ ذمہ داریاں بھی ہیں کہ وہ ان کو پورا کرتے ہوئے کائنات میں اپنے ساتھ ساتھ دوسری مخلوقات کے بھی کام آنے کی کوشش کرے گا۔ لیکن ہم انسان اپنی ان خوبیوں اور ذمہ داریوں کو پورا تو کیا بلکہ ان کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔
انسان قدرتی مظاہر کو بے دردی سے تلف کر رہا ہے اور نتائج پر سوچنے کے لئے اس کے پاس وقت ہی نہیں۔ معذرت کرتا ہوں، نتائج نہیں بلکہ بھیانک نتائج کیونکہ کچھ چیزیں کائنات کی ایسی ہیں جو کہ انسانی حیات کے لئے صرف ضروری ہی نہیں بلکہ ازحد ضروری اور لازم ہیں جیسے کہ پانی، ہوا اور پودے۔ لیکن ہم ان کا کیا حشر کر رہے ہیں، آپ اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ہمارا پانی آلودہ، ہوا گندی اور پودے ناپید ہو رہے ہیں۔ خداوند تعالی اگر انسان سے اس کے اعمال بارے پوچھے گا تو ساتھ ساتھ اس کی ذمہ داریوں بارے بھی پوچھ گچھ کرے گا۔
ہم اگر چاہتے ہیں کہ اپنی ذمہ داریاں پوری کریں تو ہمیں سوچنا ہو گا۔ ہمیں سوچنا ہو گا کہ ہم فطری مظاہر کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہیں۔ انسان کے ساتھ لیکن قدرت کبھی بھی ناانصافی اور ظلم نہیں کرتی اور اس کو موقع پہ موقع دیتی رہتی ہے۔ آج ہمارے ساتھ موقع ہے، ہم مسئلہ کو سمجھ بھی رہے ہیں کہ کیا ہے، موسم بھی آج کل بہار کا ہی چل رہا ہے تو موقع ہاتھ میں ہی ہے، تو ہم نے مصمم ارادہ کرنا ہے کہ ہم پودے لگائیں گے، ان کی دیکھ بھال کریں گے اور اپنی ذمہ داری پورا کرنے کی کوشش کریں گے۔
پودے لگانا صدقہ جاریہ بھی ہے اور ہمارے لئے اس میں دنیاوی فائدے بھی ہیں۔ ہم ان سے سبزی اور پھل بھی لے سکتے ہیں۔ چین اور یورپ میں لوگ اپنے گھروں کے اندر چھوٹی چھوٹی کیاریوں میں سبزیاں اور پھل اگاتے ہیں۔ یہ ہمیں چھاؤں بھی دیتے ہیں جس میں معانی کے لحاظ سے کسی کے کام آنے کا بہترین فلسفہ موجود ہے۔
ہم اگر چاہتے ہیں کہ ہماری آنے والی نسلیں ہمیں بددعاؤں کے بجائے دعائیں دیں تو ہمیں پودے لگانے ہوں گے، درخت بچانے ہوں گے اور جنگل اگانے ہوں گے۔ اگر ہم نے ایسا نہیں کیا تو خدانخواستہ نباتات ناپید ہو جائیں گے اور اس کا ذمہ دار کوئی اور نہیں بلکہ ہم خود ہوں گے۔ پودے لگائیں، زندگی بچائیں کیونکہ یہ فطرت کا ہم پر قرض ہے۔