ڈرامہ ”ریل” کے ساتھ ساتھ ”رئیل لائف” میں بھی چل رہا ہے!
نشاء عارف
آج کل کوئی بھی ٹی وی چینل آن کرو اور آگے بیٹھ جاؤ تو صرف مار دھاڑ، قتل و غارت، گھریلو تشدد ظلم و مکاری ہی دیکھنے کو ملتی ہے اور دیکھنے والا ذہنی سکون کی جگہ ذہنی دباؤ میں مبتلا ہو کر رہ جاتا ہے۔
مجھے اب بھی یاد ہے کہ بچپن میں ایک ہی ٹی وی چینل ہوا کرتا تھا، اس پر جو ڈرامے بھی ڈرامے نشر ہوتے سبق آموز، اور معاشرے کی عکاسی کرتے تھے۔ روزمرہ زندگی کے حوالے سے کوئی نا کوئی جن میں سبق دیا جاتا تھا۔
لیکن وقت کے ساتھ ساتھ میڈیا چینلز نے بھی ترقی کر لی اور صدر مشرف کے دور میں کافی سارے نجی ٹی وی چینلز کھول دیئے گئے، یہ چینلز اگرچہ لوگوں کو آسانی سے معلومات فراہم کرنے اور عام لوگوں کی آواز آسانی کے ساتھ دنیا کے کونے کونے تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں لیکن دوسری جانب آج کل جو ڈرامے نشر ہو رہے ہیں لگتا ہے انہی کی وجہ سے ہمارا معاشرہ بگاڑ کی جانب بڑھ رہا ہے۔
جس چینل پر جو بھی ڈرامہ دیکھو نئی نسل کو ساس بہو، بھابھی نند یا پھوپھو کو ہی فساد کی جڑ بتایا و دکھایا جاتا ہے۔ گھر کو کس طرح برباد کیا جاتا ہے، جھوٹ کیسے بولتے ہیں، والدین کو دھوکہ کیسے دیتے ہیں یہی کچھ دکھایا جاتا ہے۔ کسی بھی ڈرامہ میں کسی ایک مثبت پہلو کو اجاگر نہیں کیا جاتا۔
کہا جاتا ہے کہ میڈیا لوگوں کو انٹرٹینمنٹ کے ساتھ ساتھ شعور اور تعلیم دیتا ہے لیکن نہیں بچے تو بدتمیز ہو گئے ہیں، کس طرح کا جواب بڑوں کو دینا ہے سب بچوں کو آ گیا ہے۔
ایک آدھ ڈرامے میں اگر سبق آموز بات ہوتی بھی ہے تو وہ ڈرامے کی آخری قسط، آخری سین میں ہوتی ہے تو بچوں پر 12 قسطوں کا اثر زیادہ ہو گا یا 13ویں قسط کے آخری سین کا؟
کیا واقعی معاشرے میں یہ سب کچھ بہت زیادہ ہو رہا ہے یا لوگ تشدد، ظلم، مکر و فریب اور جبر پسند ہو گئے ہیں؟ کیا اس سے معاشرہ سیکھتا ہے یا نئی نسل کے ذہن میں دادا دادی، پھوپھی کے خلاف نفرت کے بیج بوئے جاتے ہیں؟ ہمیں اس سوال پر غور کرنا ہو گا۔
ہمیں تو جہاں تک یاد ہے پھوپھا پھوپھی یا خالہ خالو کے آنے پر امی نئے برتن نکال کر لذید و مزیدار کھانے تیار کرتی تھیں، ساری رات امی اور پھوپھیوں کے قصے ختم نہیں ہوتے تھے۔
بدقسمتی سے لیکن آج کل گھریلو تشدد، لڑائی جھگڑے والے ڈرامے ہی سپرہٹ ہوتے ہیں اور ہم لوگ بھی یہی چیزیں دیکھنا پسند کرتے ہیں اور اور ان کے مزے بھی لیتے ہیں۔ لگتا ہے پاکستان میں میڈیا بہت آزاد ہو گیا ہے، کوئی چیک اینڈ بیلنس کا سسٹم نہیں ہے۔
ڈرامے معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہ گنگا بھی الٹی ہی بہہ رہی ہے، وہ ایسے کہ ہمارا معاشرہ اب ڈراموں کا عکاس دکھائی دیتا ہے، اڑوس پڑوس کی خبر لیں ذرہ، آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ کس چینل کا کون سا ڈرامہ ”ریل” کے ساتھ ساتھ ”رئیل لائف” میں بھی چل رہا ہے۔