بلاگزسیاست

فضل الرحمان نے خود تو چوڑیاں نہیں پہنی لیکن چوڑیاں پہننے والی کے زیر اثر ضرور ہیں

خالدہ نیاز

ملک میں جاری سیاسی گہماگہمی اور تحریک عدم اعتماد کی رسہ کشی اور گرفتاریاں عروج پر ہیں جو کوئی نئی بات نہیں ہے ایسا عرصہ دراز سے چلا آرہا ہے لیکن یہاں میرا نقطہ سیاسی گہماگہمی نہیں بلکہ مولانا صاحب کا ایک بیان ہے جو گزشتہ روز انہوں نے دیا۔ حال میں تحریک عدم اعتماد میں پیش پیش جمیعت علمائے اسلام کے مولانا فضل الرحمان نے ایک ایسا ہی بیان دیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا صاحب کی نظر میں بھی خواتین کمزور مخلوق ہیں اور وہ چوڑیاں پہننے کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتی۔ ہم کسی بھی معاملے میں خواتین کو نہیں چھوڑیں گے چاہے وہ عام آدمی ہو یا سیاسی شخصیت۔

مولانا صاحب نے گزشتہ روز ایک تقریب کے دوران وزیراعظم عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ دھمکیاں مت دیں ہم نے چوڑیاں نہیں پہن رکھی تو اس حوالے سے میں یہی کہوں گی کہ یہاں بھی انہوں نے اس جانب اشارہ دیا ہے کہ وہ خواتین کی طرح ڈرنے والا نہیں ہے بلکہ وہ دھمکیوں کا جواب دے سکتا ہے۔ مولانا صاحب کی سیاست ایک طرف لیکن اس طرح سے بیانات سے پہلے انکو سوچنا ضرور چاہیے کہ انکے ٹولے میں کئی خواتین موجود ہیں اور ایک خاتون تو بہت طاقتور ہیں جن کے اشارے کے بغیر شاید مولانا صاحب بھی نہ تو عدم اعتماد کی بات کرسکتے ہیں اور نہ ہی آئندہ کا کوئی لائحہ عمل طے کرسکتے ہیں۔

میں بات کررہی ہوں مریم مریم نواز کی جو اس وقت مردوں کے شانہ بشانہ نہ صرف چل رہی ہے بلکہ کئی بار انہوں نے اس ٹولے کو لیڈ بھی کیا ہے۔ اس کے علاوہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی بیٹی آصفہ بھٹو زرداری بھی مظاہریوں میں بھرپور شرکت کررہی ہے اور وہ دن دور نہیں جب عظیم ماں کی طرح ایک عظیم سیاستدان بھی بنے۔

مولانا صاحب خواتین چوڑیاں ضرور پہنتی ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ خواتین کسی بھی لحاظ سے کمزور ہیں خواتین آجکل نہ صرف اپنے گھروں اور بچوں کو سنبھال رہی ہے بلکہ مردوں کے شانہ بشانہ ہرفیلڈ میں اپنا لوہا منوا رہی ہیں۔ ملالہ یوسفزئی اسی قوم کی بیٹی ہے جو پوری دنیا میں تعلیم کے لیے اپنی کوشیشں جاری رکھے ہوئی ہے، شرمین عبید چنائی بھی اسی قوم کی بیٹی ہے جو آسکر ایوارڈ اپنے نام کرچکی ہیں۔ محترمہ عاصمہ جہانگیر جو اب اس دنیا میں نہیں رہی لیکن انہوں نے انسانیت کی جو خدمت کی وہ کوئی بھول نہیں سکتا۔ وہ انسانی حقوق کی عملبردار اور سماجی کارکن تھی۔

ثنا میر اور بسمہ معروف کرکٹ کی دنیا میں پاکستان کا نام روشن کرچکی ہیں، لیفٹننٹ جنرل نگار جوہر فوج میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں، جسٹس عائشہ ملک سپریم کورٹ کی پہلی خاوتن جج ہیں مولانا صاحب اور کس کس کا نام لوں فہرست بہت لمبی ہے۔ میرے وطن کی ہر خاتون اپنی مثال آپ ہے وہ جو کچھ کررہی ہیں اتنا کرنا آسان نہیں ہے، ایک دن بچوں کو پالنا اور گھر بھر کے لیے کھانا تیار کرنا بھی مرد کے بس کی بات نہیں ہے۔
خواتین کمزور نہیں ہیں ہاں لیکن آپ مردوں نے انکو کمزور سمجھ رکھا ہے اور انکو پیچھے دھکیلنا چاہتے ہیں لیکن اب وہ وقت نہیں ہے کہ خواتین کے ساتھ ظلم ہوتا رہے گا اور وہ اس پہ چھپ رہیں گی۔ آپ انکو موقع دے وہ بہت کچھ کرسکتی ہیں اور مثال تو ہمارے پاس موجود ہے کہ پی ڈی ایم کو اس وقت لیڈ بھی مریم نواز کررہی ہیں کیونکہ وہ طاقتور ہیں اس کے پیچھے اس کے گھر والوں کا سپورٹ ہے۔

ارے یہاں تو آپ سے خواتین کا عورت مارچ بھی برداشت نہیں ہوتا، عورت مارچ کے خلاف کتنے لوگ پروپیگنڈا کررہے ہیں اس میں کیا ہوتا ہے صرف کچھ سلوگنز، صرف کچھ سلوگنز بھی آپ برداشت نہیں کرسکتے اور اس کے خلاف تحریک شروع ہوجاتی ہے، نعروں کو غلط انداز میں پیش کیا جاتا ہے کہ میرا جسم میری مرضی ٹھیک بات نہیں ہے تو کیا میرا جسم تمہاری مرضی ہوگی بس اس کو سمجھنے والے لوگ چاہیے کہ اس کا اصل مقصد کیا ہے لیکن یہاں سمجھنے والے لوگ ہی نہیں ہے۔

آخر میں بس یہی کہنا چاہوں گی کہ مولانا صاحب سیاست ضرور کریں لیکن ایسے بیانات دینے سے قبل سوچیے گا ضرور کیونکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مریم نواز ناراض ہوجائے اور آپکو پی ڈی ایم سے بھی ہاتھ دھونا پڑ جائے کہ مریم نواز بھی ایک خاتون ہیں۔ میرے ملک کی ہر خاتون ایک ہیروئن ہیں اور اس کا مقابلہ کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔

وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button