افضال و حسنین: سفر آخرت پر روانہ پشاور کے دو کزن، بہنوئی اور جگری دوست!
محمد فہیم
جمعرات کی شام بینک منیجر کے عہدے پر ترقی حاصل کرنے پر پشاور کے رہائشی سید محمد افضال نے اس ویک اینڈ پر ساتھیوں اور رشتہ داروں کو ٹریٹ دینے کا وعدہ کیا تھا۔ جعمہ کے روز نئے کپڑے پہن کر پشاور کی مرکزی شیعہ جامعہ مسجد پہنچا۔ سید محمد افضال کے ہمراہ سید عنیق حسنین بھی موجود تھا۔ سید محمد افضال اور سید عنیق حسنین رشتہ میں ایک دوسرے کے بہنوئی تھے جبکہ سید افضال کی والدہ اور سید عنیق حسنین کے والد دونوں بہن بھائی تھے۔
جمعہ کے روز جامع مسجد میں داخل ہونے کے بعد سید محمد افضال مسجد میں جگہ نہ ہونے پر راستے میں بیٹھ گئے جبکہ سید عنیق حسنین نے بھی رب کو منانے کے سفر میں ان کا ساتھ دیتے ہوئے وہیں جائے نماز بچھا لی۔ سید محمد افضال کے پھوپھی زاد سید وسیم حیدر اپنے کم سن بیٹے کے ہمراہ جب نماز کی ادائیگی کیلئے مسجد میں داخل ہوئے تو سید محمد افضال اور سید عنیق حسنین کو راستے میں بیٹھا دیکھ کر دونوں کو مسجد کی پہلی منزل پر نماز کی ادائیگی کیلئے جانے کا مشورہ دیا۔ مشورہ سنتے ہی سید محمد افضال اٹھ کھڑے ہوئے اور بالائی منزل پر جانے کا فیصلہ کر لیا تاہم قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
سید عنیق حسنین ٹانگوں میں درد کے باعث مسجد کی بالائی منزل پر نہیں جا سکتے تھے اس لئے سید محمد افضال کا بھی ہاتھ تھاما اور وہیں بیٹھ کر نماز پڑھنے کا مشورہ دیا۔ سید محمد افضال نے بھی اپنے جگری دوست، کزن اور بہنوئی کی بات مانتے ہوئے دوست سے معذرت کر لی اور مسکرا کر وہیں بیٹھ گئے۔ وہاں موجود چند دوستوں بشمول عباس علی نے بھی مشورہ دیا کہ راستے سے اٹھ کر اوپر چلے جائیں لیکن سید محمد افضال نے کسی بھی دوست کی نہ مانی اور سید عنیق حسنین کا دل رکھنے کیلئے وہیں بیٹھ گئے۔
جمعہ کے روز ہونے والے خودکش دھماکے میں دونوں ساتھی سفر آخرت پر ایک ساتھ ہی روانہ ہو گئے۔
سید محمد افضال کے تین بچے ہیں جن میں دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے، بچوں کی عمریں 3 سے 7 سال کے درمیان ہیں جبکہ سید عنیق حسنین کی شادی ہوئے کافی عرصہ ہو گیا تاہم اللہ نے انہیں ابھی تک اولاد کی نعمت سے نہیں نوازا تھا۔ سید عنیق حسنین کی دعا میں ہمیشہ رب سے اپنی سونی گود کیلئے چند کلمات ضرور ہوا کرتے تھے۔ دونوں کی میتیں جب گھر پہنچیں تو کہرام برپا ہو گیا ہر شخص نوحہ کناں تھا کہ آخر ان کا قصور کیا تھا؟
سید محمد افضال کے بھائی سید محمد انوار نے کچھ عرصہ قبل پشاور کے بگڑنے حالات کے پیش نظر والد کو مشورہ دیا تھا کہ پشاور سے اسلام آباد منتقل ہو جاتے ہیں تاہم والد نے پشاور چھوڑنے سے صاف منع کر دیا اور اسی مٹی میں مل جانے کا ارمان دل میں دبائے بوڑھے کاندھوں نے اپنے جوان بیٹے کا جنازہ اٹھا لیا۔
افضال کی ماں کا غم ایک نہیں
سید محمد افضال اور سید عنیق حسنین اب اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن سب سے بڑا امتحان تو اب شروع ہوا ہے۔ دونوں آپس میں کزنز تھے اور دونوں ایک دوسرے کے بہنوئی بھی، اب دونوں کی بہنیں اور بیویاں بیوہ ہو گئی ہیں۔ افضال کی والدہ حیات ہیں اور اپنے بچوں کے دکھ درد کو دیکھنے کیلئے شاید اللہ نے انہیں مزید زندگی عطا کی ہے جبکہ عنیق کی والدہ کا انتقال ہو چکا ہے اور شاید ان کا انتقال ہونا بہتر تھا ورنہ تو آج اپنے خاندان کا شیرازہ بکھرتا دیکھ کر وہ جیتے جی مر جاتیں۔
افضال کی ماں کیلئے اب دکھ مزید بڑھ گیا ہے۔ ایک جانب تو وہ اپنے لال سے محروم ہو گئی ہیں تو دوسری جانب ان کے دل پر جوان بیوہ بیٹی اور جوان بیوہ بہو کی ذمہ داری کا بوجھ بھی رکھ دیا گیا ہے۔ افضال کی ماں کے ذمہ اب اس کے تین یتیم بچوں کی پرورش اور بہتر مستقبل کی ذمہ داری بھی آن پڑی ہے۔ بوڑھی آنکھیں بیٹے اور داماد کی میتیں دیکھنے کا منظر اب شاید قبر تک ساتھ لے کر جائیں گی لیکن جتنی بوڑھی ہیں اس غم نے انہیں اس سے زیادہ بوڑھا کر دینا ہے، ان کی زندگی کا مقصد اب بہو اور پوتے پوتیوں سمیت اپنی بیٹی کی زندگی کا سہارا بننا ہی رہ گیا ہے۔
پشاور کی گلیوں میں سوگ
آرمی پبلک سکول میں سو سے زائد بچوں کے شہید ہونے کے بعد ہر گلی اور ہر چوراہے میں کم سن بچوں کے جنازوں کے اوقات کے چارٹ آویزاں کئے گئے تھے، آج 8 سال بعد پشاور کی گلیوں میں وہی منظر دوبارہ دیکھ لیا۔ ایک ایک بجلی کے پول پر چار سے پانچ چارٹ آویزاں کئے ہوئے انتقال پرملال کی افسوس ناک خبر دے رہے تھے۔
پشاور کی فضا سوگ وار ہے، ہر گلی میں سسکیوں اور آہوں کی آواز ہے۔ دو روز قبل جن گلیوں میں ہنسنے اور کھیلنے کی آوازیں تھیں اب بات کرتے کرتے دھاڑیں مار کر رونے کی آوازیں کانوں میں سوئیاں چبھو رہی ہیں۔
بم دھماکے کے ماسٹر مائینڈ تک پہنچنے کا دعویٰ
پشاور کے کوچہ رسالدار میں جمعہ کی نماز سے قبل خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا تھا۔ جمعہ کی نماز میں رب کی رضا کے خواہشمند 62 نمازی شہید جبکہ 190 سے زائد زخمی ہو گئے۔ زخمیوں میں سے بیشتر کو گھر بھیج دیا گیا ہے جبکہ ایک بڑی تعداد میں زخمی تاحال پشاور کے مختلف ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔
پشاور کی مرکزی شیعہ جامعہ مسجد کے مرکزی ہال میں ہونے والے خودکش حملے میں ملوث کئی افراد کی گرفتاری کا دعویٰ بھی کیا جا رہا ہے جبکہ 48 گھنٹوں میں مزید گرفتاریاں ہونے کا بھی امکان ہے۔