بلاگزجرائم

پشاور دھماکہ: ایل آر ایچ کا آنکھوں دیکھا حال

ناہید جہانگیر

پتہ نہیں قیامت کا دن کیسا ہو گا لیکن شاید آخرت کے علاوہ اس دنیا میں بھی کبھی کبھی قیامت کے مناظر رونما ہوتے ہیں، جو ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا، وہ ہو جاتا ہے۔

خون میں لت پت زخمیوں سے بھرے بھرے سٹریچرز اتنی تیزی سے اپنی جانب دیکھ کر سب کچھ دھندلا ہو گیا، صرف کانوں میں آواز آ رہی تھی ”میڈم راستے سے ہٹو، ایک سائیڈ پر ہو جاؤ۔”

میں یہ آوازیں سن رہی تھی لیکن میری نظر ایک سٹریچر پر تھی جس میں ایک عمر رسیدہ بابا تھا اور اس کی کھوپڑی کھلی تھی، اتنے میں مجھے کسی نے اٹھا کر ایک طرف کر دیا۔ میرے اوسان بحال ہونے میں کچھ وقت لگا۔

4 مارچ کو کوچہ رسالدار مسجد میں نماز جمعہ کے دوران خود کش حملہ ہوا جس میں بے شمار لوگ زخمی اور شہید ہوئے۔ چونکہ یہ مسجد ایل آر ایچ کے قریب ترین ہے اس لیے تقریباً تمام زخمیوں کو ادھر ہی لایا گیا جن میں 194 زخمی اور 60 سے زیادہ شہیدوں کو لایا گیا۔

سنا تھا ایمرجنسی صورت حال کے بارے میں لیکن اپنی آنکھوں سے پہلی مرتبہ دیکھ رہی تھی کہ ایک طرف کسی درندے نے معصوم لوگوں کو بے دردی سے نماز جمعہ میں خودکش حملہ کر کے مار دیا لیکن دوسری جانب انسانیت کے لیے کام کرنے والے بے شمار تھے۔

ایک پورٹر کو دیکھ رہی تھی جو زخمیوں کو لے جانے کے لئے دوڑ رہا تھا اور اپنے جوتے تیزی سے اپنے پاؤں سے آزاد کیے جو ہوا میں اچھل کر دور جا گرے، شاید وہ انہین جلدی امداد دینے میں رکاوٹ سمجھ رہا تھا۔

سچ کہتے ہیں طب سے وابستہ افراد مسیحا ہوتے ہیں، جتنے بھی ڈاکٹرز ،نرسز یا دیگر پیرا میڈیکل سٹاف تھا، سب ایمرجنسی کی جانب دوڑ رہے تھے جیسے آج ہی ان کا اصل امتحان لیا جا رہا ہے۔ کچھ مرد و خواتین ایمرجنسی میں چیخ چیخ کر رو رہے تھے، معلوم نہیں ان کا اپنا کوئی پیارا مرگ گیا تھا یا موت و زندگی کی جنگ لڑ رہا تھا۔

چونکہ کوچہ رسالدار اندرونی شہر کا علاقہ ہے جس کے راستے کافی تنگ ہیں، پھر پشاور شہر ایک مصروف ترین شہر ہے اور کافی رش ہوتا ہے، ایمبولینس آسانی سے نہیں گزر سکتی اس لیے ایمبولینس، رکشوں کے ساتھ ساتھ لوگ اپنے کندھوں پر بھی زخمیوں کو ایل آر ایچ لے کر آ رہے تھے۔

اس بھاگ دوڑ میں ایک بات نے بہت مایوس بھی کیا، عام لوگ اتنے جمع ہوئے تھے کہ رش کی وجہ سے ہسپتال کے عملے کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، ایسی صورت حال میں اگر کوئی مدد نہیں کر سکتا تو باعث تکلیف بھی نا بنے۔ خبر دینے کے لیے تمام چینلز کی ٹیمیں موجود تھیں، گھر بیٹھ کر ٹی وی سے خود کو باخبر رکھتے۔

یہ خودکش حملہ ایک مسجد پر نہیں پوری انسانیت پر تھا جس نے نا صرف کئی گھر اجاڑ دیئے بلکہ آنے والی کئی نسلوں کے دلوں کو بھی خوف زدہ کر دیا۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button