لڑکی بھاگ جائے تو ”مٹیزہ”۔۔ لڑکے کو کچھ کیوں نہیں کہتے؟
ڈاکٹر سردار جمال
مردوں اور عورتوں کے درمیان موجود بیشتر فرق ہزاروں سال کے دوران پیدا کیے گئے ہیں۔ ایسے فرق فطری نہیں ہیں تاہم کچھ فرق ایسے ہیں جو انہیں حسن اور انفرادیت عطا کرتے ہیں۔ ایسے فرق کو بہ آسانی گنا جا سکتا ہے۔
مرد اور عورت کے درمیان اولین فرق یہ ہے کہ عورت زندگی کو تخلیق کرنے کی اہل ہے۔ مرد ایسا نہیں کر سکتا۔ اس اعتبار سے وہ کمتر ہیں، اور اسی کمتری نے عورتوں پر مردوں کی برتری قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ تاہم جسمانی طاقت تو حیوانیت کا جزو ہوتی ہے۔ اگر برتری کا تعین جسمانی طاقت سے ہی ہونا ہے تو کوئی بھی جانور لیں، وہ مرد سے زیادہ طاقتور ہو گا۔
مرد نے عورت کو تعلیم سے، مالی آزادی سے محروم رکھا ہے۔ مرد نے عورت کو سماجی میل جول سے محروم رکھا ہے کیونکہ وہ خوفزدہ ہے۔ وہ جانتا ہے کہ عورت برتر ہے۔ وہ جانتا ہے کہ عورت خوبصورت ہے۔ وہ جانتا ہے کہ عورت کو آزادی دینے سے خطرہ کھڑا ہو جائے گا۔ پس صدیوں تک عورت کو آزادی نہیں دی گئی۔
دنیا میں عورت کے بارے جو آزادی کی تحریک جاری ہے، وہ مرد کی تخلیق کردہ مظہر ہے۔ یہ بھی ایک اور مردانہ سازش ہے۔ یہ ایک گہری سازش ہے۔ مرد ساری دنیا میں عورت کو قائل کر رہا ہے کہ عورت کو آزاد ہونا چاہیے۔ یہ ایک باریک چال ہے۔ مرد کا ذہن عیار ہے اور مرد کا ذہن کامیاب ہو رہا ہے کیونکہ اب بہت سی عورتیں اس نظریے کی قائل ہو چکی ہیں۔
چونکہ عورت کو مغلوب رکھا گیا ہے، اسے تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے اور اسے پست کرتے کرتے ایک لاشہ بنا دیا گیا ہے لہٰذا وہ بھدی ہو چکی ہے۔ جب بھی کسی کو اپنی فطرت کے داخلی تقاضوں کے مطابق نہیں چلنے دیا جاتا، وہ تلخ ہو جاتا ہے، وہ معدوم ہو جاتا ہے، وہ مفلوج ہو جاتا ہے۔
ہندومت میں عورت کو اپنے شوہر کے مرنے پر اس کے ساتھ مرنا پڑتا تھا۔ یہ کتنا زیادہ حسد تھا کہ عورت کو اپنی ساری زندگی اپنی ملکیت میں رکھا اور حد تو یہ ہے کہ مرنے کے بعد بھی اسے اپنی ملکیت میں رکھنا چاہتے تھے۔
اب تک دنیا نے عورت کو ماں سمجھا ہے، بہن سمجھا ہے، بیٹی سمجھا ہے یہاں تک کہ اسے گرل فرینڈ جیسے برانڈڈ نام بھی دیئے گئے ہیں مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ اب تک کسی نے اس عظیم ہستی کو انسان نہیں سمجھا ہے بلکہ اسے ایک اینٹیک کے طور پر استعمال کیا ہے۔ ہمارے رویے عورت کے بارے معتصبانہ چلے آ رہے ہیں، ہمارے ہاں تو "مٹیزہ” لفظ مستعمل ہے یعنی وہ لڑکی جو اپنی مرضی سے شوہر کا انتخاب کرتی ہے اور اس لڑکے کے ساتھ چلی جاتی ہے تو اس کے لئے "مٹیزہ ” جیسا حقیر لفظ استعمال کیا جاتا ہے مگر اس لڑکے کے لئے کوئی گرا ہوا لفظ اب تک ایجاد نہیں کیا گیا ہے جو پرائے لڑکی کو بھگا کر لے جاتا ہے۔
ہمارے ہاں تو طوائف اور رنڈی جیسے الفاظ اور القابات تو عورت کی کردار کشی کے لئے مستعمل ہیں مگر وہ بندہ جس کے بُرے کردار کی وجہ سے طوائف اور رنڈی جیسی عورتیں پیدا ہوتی ہیں اس کے لئے کوئی نام اب تک پیدا نہیں ہوا ہے۔ ایک عورت کی خرابی میں کئی مرد حضرات شریک ہوتے ہیں لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ تمام پردے سے غائب ہوتے ہیں۔
عورت اگر تھوڑی بہت غلطی بھی کرے تو اس کے پاس غلطی چھپانے کے لئے حاجی صاحب، مولوی صاحب اور امیر صاحب جیسے مقدس نام ہیں نہیں، بس اس بیچاری کو ساری عمر اس قصور میں رہ کر بلکہ قبرستان میں دفن ہونے کے بعد بھی معاف نہیں کیا جا سکتا، جبکہ دوسری طرف مرد حضرات کے پاس توبہ استغفار کا دروازہ ہر وقت کھلا رہتا ہے اور ایک حج ادا کرنے کے بعد تمام داغ مٹ جاتے ہیں اور ایک گناہ گار بندہ حاجی صاحب جیسے مقدس نام سے پکارا جاتا ہے۔
عورت کی کامل آزادی کا مطلب یہ ہے کہ عورت کو اگر انسان سمجھا گیا تو اس کا واضح مطلب کامل آزادی ہے، کامل آزادی بنیادی بشری حقوق میں سے ایک ہے، لیکن تنگ نظر لوگ کامل آزادی سے وہ آزادی مراد لیتے ہیں جس میں عورت کو جنسی آزادی دی جاتی ہے، مگر ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔
جنسی ضرورت انسانی بنیادی ضروریات میں سے بہت معمولی چیز ہے اور یہ اتنی معمولی سرگرمی ہے کہ یہ ایک چیونٹی بھی بہت خوب انداز میں کر سکتی ہے۔ بحیثیت انسان ہماری ذمہ داریاں جنس اور جنسیات سے بڑھ کر ہیں اور یہ تب ممکن ہے کہ مرد انسان بن کر عورت بھی کو انسان سمجھ لے۔
اگر عورت حقیقتاً عورت بننے کے لیے آزاد نہیں ہوئی تو پھر مرد بھی حقیقتاً مرد بننے کے لئے آزاد نہیں ہو گا۔ مرد کی آزادی کے لیے عورت کی آزادی انتہائی لازمی ہے۔ عورت کی آزادی مرد کی آزادی سے زیادہ بنیادی اہمیت رکھتی ہے اور اگر عورت غلام ہے جیسا کہ صدیوں سے غلام ہے تو وہ مرد کو بھی غلام بنا دے گی، نہایت نفیس طریقوں سے۔ اس کے طریقے نفیس ہوتے ہیں۔ عورت براہ راست نہیں لڑے گی، اس کی لڑائی تو بالواسطہ ہو گی، یہ نسائی لڑائی ہو گی۔ وہ چیخے گی اور روئے گی۔ وہ کسی کو مارے گی نہیں، وہ اپنے آپ کو مار دے گی اور اپنے آپ کو مار کر، چیخ کر اور رو کر، مضبوط ترین آدمی کو زن مرید بنا لے گی۔ ایک بہت نازک، کمزور سی عورت ایک انتہائی طاقتور مرد کو مغلوب کر سکتی ہے اس لئے عورت کو کامل آزادی کی ضرورت ہے تاکہ وہ مرد کو بھی آزادی دے سکے۔