سیاستکالم

”بچے مشرق کے ہوں یا مغرب کے، اُن کے ہنسنے اور رونے کی آواز ایک ہی ہے”

ماخام خٹک

حال ہی میں روس یوکرائن جنگ میں ایک دس گیارہ سالہ چھوٹی بچی کو دکھایا گیا ہے کہ وہ یوکرائن فوجی کو پنجوں کی اُٹھان، سینہ تان اور مکا لہرا کر، چلا چلا کر بول رہی ہوتی ہے کہ "اپنے ملک واپس چلے جاؤ۔” وہ فوجی حالت جنگ میں، اسلحہ سمیت پس منظر میں ٹینکوں کی موجودگی میں بغیر کسی رد عمل کے آگے بڑھتا ہےـ

اب اِس پورے سیچوویشن کا لب لباب کیا بنتا ہےـ جس کو انسانی ذہن اس طرح تشریح کرتا ہے کہ وہ تو روز یہ سنتا ہے کہ بچے غیرسیاسی ہوتے ہیںـ تو پھر اتنی بڑی سیاست جو یہ بچی کر رہی ہے یہ کیا ہے؟ تو اِس کا جواب یہ بنتا ہے کہ بچے داخلیت میں غیرسیاسی ہوتے ہیں لیکن خارجیت میں ان کا فعل غیرسیاسی یا غیرِ سیاست کا نہیں ہوتاـ بچے خود سے جو عمل کرتے ہیں وہ سو فی صد غیرسیاسی اور غیرمنافقانہ ہوتا ہے لیکن جو عمل کسی کے کہنے یا بقول شخصے اِن کیمرہ کرتے ہیں تو وہ کسی خارجی دباؤ یا خارجی اِملا کے تحت کرتے ہیں، اُس میں سیاست اور کسی حد تک منافقت یا پھر کسی کی ایمائیت کے زیراثر فعل گردانتے ہوئے پروپیگنڈا آئٹم یا پھر جنگی، حربی، گروہی یا اختلافی شاخسانہ ہو سکتا ہےـ

نفسیاتی طور پر کہا جاتا ہے کہ ناسمجھی کی وجہ سے بچے اور دیوانے بہت طاقتور ہوتے ہیں، پر اعصابی کمی یا کمزوری کی وجہ سے بہت ڈرپوک بھی ہوتے ہیں اِس لئے اگر اِن کےخلاف ذرہ سی بھی مزاحمت آ جاتی ہے تو یہ ڈر جاتے ہیں، پھر بھاگنا اور رونا اِن کا انتہائی مدافعانہ رد عمل ہوتا ہےـ

بچے اور مستورات ہمیشہ سے انسانی جذبات کی کمزوری رہی ہیں خواہ وہ قبائلی دور ہو یا پھر آج کا یہ جدید دور، بچوں اور خواتین کو جنگوں اور شورشوں میں سیف سائیڈ دیا جاتا تھا اور دیا جاتا رہا ہے لیکن پھر اِس کے ناجائز فائدے بھی لئے گئے ہیں، اکثر اِن کو استعمال بھی کیا گیا ہے تاکہ اِن کے سہارے اپنے سوچے ہوئے منصوبوں کو پایایہ تکمیل تک پہنچایا جا سکے۔

ویسے بھی اگر دیکھا جائے جنگ کی فتح یا شکست کسی کی بھی ہو آخر میں اِس جنگ کی تباہ کاری خواتین اور بچوں کو ہی فیس کرنا پڑتی ہے، اس کا خمیازہ خواتین بیوگی، بیٹوں، بھائیوں، باپ کی ہلاکت خیزی کی صورت میں اور بچے ماں باپ کی کمی، اُن کے نہ ہونے کی وجہ سے بھگتتے ہیں۔

اِس طرح کے واقعات سے ہماری جنگوں کے بعد کی صورت حال سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ صرف یہ نہیں کہ جنگوں میں خواتین اور بچوں کو مردانہ منصوبہ سازی یا مردانہ منافع خوری کے لئے اِستعمال کیا گیا، اِن کو جرائم کی دنیا میں بھی جنگی حکمت عملی کی مانند ‘یوز’ کیا گیا کیونکہ قانون میں بچوں اور خواتین کو نرمی دی گئی ہوتی ہے، جرم کر کے بھی خاتون "خاتون” اور بچہ "بچہ” ہونے کا فائدہ لے لیتے ہیں اِس لئے تو کہا جاتا ہے کہ "لاء بریکر اِز مور وائزر دین لاء میکر۔”

جیسا کہ جووینائل جسٹس سسٹم 2000 میں بچوں کو سزا نہیں ہو سکتی اور پندرہ سال کے بچے کو ضمانت ایز آف آ رائٹ دی جائے گی۔ پھر چھ مہینے اور سال کے وقفے سے نان پروہیبیٹری کلازز کیس میں بھی اُن کو ضمانت مل سکتی ہے اگر کیس پروسیڈ نہیں ہوتا۔ اِس طرح ضابطہ فوجداری کی دفعہ چارسو ستانوے میں خواتین، بچوں اور بوڑھوں کو ضمانت میں استثناء حاصل ہے۔ اِسی طرح تعزیرات پاکستان کے لاء آف جنرل ایکسیپشنز میں بھی استشناء دی گئی ہے۔ پھر وومن پروٹیکشن ایکٹ 2006 میں بھی خواتین کو اگر چھ مہینے اُن کا کیس پروسیڈ نہیں ہوتا تو ضمانت پھر مل سکتی ہےـ

اِن سب باتوں کا مقصد یہ ہے کہ خواہ جنگ ہو یا پھر کرائم، منصوبہ سازوں نے اپنے مفاد کے لئے بچوں اور خواتین کو استعمال کیا ہے، استعمال کرتے رہے ہیں اور شاید استعمال کرتے رہیں گے۔ یہ جو میں نے اوپر یوکرائنی بچی کی مثال دی ہے، جذباتی لحاظ سے بہت دل دہلانے والی ویڈیو ہے لیکن یہ ویڈیو کوئی فطری ویڈیو نہیں ہے، یہ باقاعدہ فلمائی ہوئی لگتی ہے یا شوٹ کی ہوئی لگتی ہے۔ جس میں بچی کا لباس کسی جاری جنگ زدہ علاقے یا موقعے کا نہیں ہو سکتا پھر روسی فوجی کی کمال کی ہوشیاری اور کوئی رد عمل نہ دکھانا معنی خیز ہے کیونکہ فوجی اِس دوران ویڈیو بنانے والے کی طرف دیکھ بھی رہا ہوتا ہے تاکہ اُن سے ایسا کوئی عمل سرزد نہ ہو جو قابل گرفت ہو۔

یہ ویڈیو اُس طرح کی ویڈیو بھی نہیں ہے جس میں روسی ٹینکوں کو چلتے ہوئے کار پر چڑھاتے ہوئے دکھایا گیا ہے یا گھروں پر حملے کرتے ہوئے بچوں کی چیخ و پکار کو دکھایا اور سنایا گیا ہے۔ پھر بھی اِن تمام باتوں کی ایک بات کہ جنگ کسی کی بھی، کہیں کی بھی ہو، بچے کسی کے بھی ہوں، کہیں کے بھی ہوں، جنگ بری چیز ہے اور بچے بہت پیارے ہوتے ہیں۔

ان پیارے پیارے بچوں کی خاطر ہر طرح کی جنگوں سے کنارہ کشی اور نفرت کیا جائے اور ان تازہ تازہ کلیوں کو تازہ کونپلوں کی طرح پھول کھلنے تک کا پورا پورا موقع ملنا چاہئےـ سلیم راز صاحب کا مشہور شعر ہے: ع
ماشومان کہ د مشرق کہ د مغرب وی
د خندا او د جڑا آواز یہ یو دے

ترجمہ: بچے خواہ مشرق کے ہوں یا مغرب کے، اُن کے ہنسنے اور رونے کا انداز یا ان کی آواز ایک جیسی ہوتی ہےـ

جہاں تک خواتین کا تعلق ہے اور خواتین پھر ماں کے روپ میں ہو اور بوڑھا باپ جن کا سایہ ابرِ رحمت کی مانند ہو، بھلے ضعیف ہوں، بھلے پرانے ہوں، جس کے لئے میں نے اپنے پشتو کے دوسرے شعری مجموعے "لکہ فصل ریبل کېگم” کی ایک غزل کے شعر میں اِس صورت حال کو اِس عقیدت سے بیان کیا ہے: ع

ہر شے چے زوڑ شی قدر بائیلی مور او پلار نہ سیوا
ماخامہ! ولے مور او پلار تہ ہم زاڑہ وائی خلق

ترجمہ: کوئی بھی چیز جب پرانی ہو جائے تو اپنی قدر یا وقعت کھو دیتی ہے سوائے ماں باپ کے، اے ماخام! یہ لوگ کیوں پھر ماں باپ کو بھی پرانا بولتے ہیں؟

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button