کیا آپ بھی چند ہزار میں اپنا رنگ گورا کرنا چاہتے ہیں؟
انیلا نایاب
مشرقی ممالک میں حسن صرف گورا رنگ ہی تصور کیا جاتا ہے۔ ایک کہاوت ہے کہ گورا رنگ 100 عیب چھپاتا ہے۔ ماضی میں اگر دیکھا جائے تو صرف امیر فلمی ستارے خود کو نا صرف میک اپ سے بلکہ سرجری اور کئ کئی طریقوں سے خوبصورت بنانے کی کوشش کرتے تھے۔
مائیکل جیکسن سے لے کر شاہ رخ خان، کاجول اور کئی مشہور بولی ووڈ ستاروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے گورا ہونے کے لیے مختلف آپریشن کئے۔
یہ ٹرینڈ اب اتنا زیادہ ہو گیا ہے کہ بولی ووڈ اور ہالی ووڈ تو کیا اب تو پاکستانی شوبز کے ستاروں سمیت عام لوگ بھی گورا بننے کے لئے مختلف حربے استعمال کر رہے ہیں۔
آج کل ہر دوسرا تیسرا بندہ گورا ہونا چاہتا ہے۔ اس حوالے سے نادرہ کا کہنا ہے کہ ان کا تعلق افغانستان سے ہے اور ان کے سب فیملی ممبر بہت ہی سرخ و سفید ہیں لیکن والد کا رنگ گندمی ہونے کی وجہ سے ان کا بھی رنگ تھوڑا گندمی ہیں جس کی وجہ وہ سب کزن کے سامنے احساس کمتری کا شکار ہوتی ہیں۔
نادرہ پشاور شہر میں رہتی ہیں اور یہاں ایک نجی ادارے میں کام کرتی ہیں، 2 سالوں سے وہ رقم اس نیت سے جمع کر رہی ہیں کہ وہ وائٹننگ انجیکشن لگائیں گی۔
دوسری جانب پشاور شہر سے تعلق رکھنے والی سارہ خان وائٹننگ کا پورا کورس کر چکی ہیں، سارہ کے مطابق ان کا رنگ کافی گہرا تھا، شوہر دبئی میں ملازمت کرتے ہیں جس کے کہنے پر انجیکشن کا پورا کورس کیا کیونکہ شوہر کو سفید رنگ بہت پسند ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان کو 4 سال ہو چکے ہیں کوئی خاص سائیڈ ایفکٹ تو نہیں ہوا لیکن یہ ہے کہ ان کی جلد بہت حساس ہو گئی ہے، زیادہ دھوپ یا روشنی برداشت نہیں کر سکتی۔
روز بروز سفید ہونے کے ٹرینڈ کے حوالے سے لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے پلاسٹک سرجن ڈاکٹر ریاض احمد آفریدی نے بتایا کہ آج کل سِکن وائٹننگ کا ٹرینڈ لوگوں میں کافی مشہور ہو رہا ہے، لوگوں کی خواہش ہے کہ سکن وائٹ ہو جائے یعنی چہرہ ڈارک سے سفید ہو جائے، مریض کی رنگت کو دیکھ کر ڈاکٹر یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ کون سا ٹریٹمنٹ کرنا ہے، آج کل جو ٹریٹمنٹ سب سے زیادہ ہوتی ہے وہ ”بلوٹاتھایو” ہے جو بنیادی طور پر ہارمون يا ایک کیمیکل ہے جو کہ لیور میں پروڈیوس ہوتا ہے، یہ اینٹی جینک یا جسم میں ڈیفنس کے قدرتی نظام کو امپرو کرتا ہے۔
یہ انجیکشن بھی مارکیٹ میں مختلف فارمز میں دستیاب ہے، یہ مختلف قسم کے ٹشوز کو گورا کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔
ڈاکٹر نے مزید بتایا کہ اسے سلین میں ملا کر ہفتہ وار یا دو ہفتوں بعد لگایا جاتا ہے جو کہ ڈرپ کی صورت میں لگتا ہے۔ رنگ گورا کرنے کے لئے اس کو مریض نے تقریباً 8 سے 10 سیشن لینے ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر ریاض احمد کے مطابق یہ کورس دو مہینوں سے لے کر تین مہینوں میں پورا ہوتا ہے، اس کو پرینٹل ایڈمنسٹرشین کہتے ہیں، اس فارم میں لگانے سے اس کا اثر جلد ہوتا ہے کیوں کہ یہ خون میں براہ راست شامل ہوتا ہے تو اس کا اثر بھی جلدی شروع ہوتا ہے، خون میں شامل ہونے کی وجہ سے جسم پر بہت جلد اثرانداز ہوتا ہے۔
ڈاکٹر نے اس علاج کے نقصانات بارے سوال کے جواب میں کہا کہ اس پر اتنا زیادہ کام نہیں ہوا ہے، بعض ممالک میں اس پر بین بھی لگایا گیا ہے کیونکہ یہ ایک نیا پراڈکٹ ہے، اس پر کام جاری ہے لیکن جتنے بھی لوگوں کا علاج انہوں نے کیا ہے کسی کی جانب سے کوئی کمپلینٹ سامنے نہیں آئی۔ ڈاکٹر نے مزید بتایا کہ دوسرا طریقہ بلو ٹا تھا یون لگایا جاتا ہے وہ ٹا پیکل ہے جس میں اکثر لوگ جسم کے مخصوص حصوں کو گورا کرنا چاہتے ہیں مثلا صرف چہرہ، ہاتھ یا پاؤں اس میں انجکشن فارم میں اس حصے میں لگایا جاتا ہے، ہفتے میں ایک بار یا دو ہفتوں بعد لگایا جاتا ہے، اس کا بھی ایک کورس آٹھ سے دس سیشن کا ہوتا ہے جو کہ دو سے تین مہینوں میں مکمل ہوتا ہے، جس جگہ یہ انجیکٹ ہوتا ہے صرف وہی حصہ گورا ہوتا ہے، یہ کم ڈوز میں لگتا ہے تو یہ جسم کو انفیکٹ نہیں کرتا۔
کریم فارم میں بھی کچھ پراڈکٹ مارکیٹ میں دستیاب ہیں جو کہ رات کے وقت لگاتے ہیں، ان کا اثر وقت لیتا ہے اور کچھ دنوں بعد جلد سفید ہونا شروع ہو جاتی ہے۔
ڈاکٹر کے مطابق آج کل زیادہ تر مریضوں میں عورتیں شامل ہیں، عورتیں زیادہ تر گورا ہونے کی ڈیمانڈ کرتی ہیں، ایک سیشن جو کہ ہفتے میں ایک یا دو ہفتے بعد لگاتے ہیں اس پر بارہ سے پندرہ ہزار کا خرچہ آتا ہے، اوور آل کورس ایک لاکھ سے ایک لاکھ بیس ہزار کا ہوتا ہے، مختلف کمپنیوں کے مختلف ریٹ ہوتے ہیں۔