افغانستان میں طالبان حکومت میں کیا آئے پکوانوں کے ذائقے پھیکے پڑ گئے
عارف حیات
افغانستان میں انتقال اقتدار کے بعد پشاور کے پیپل منڈی بازار کے مصالحہ جات کی نمکین خوشبو پھیکی پڑ گئی ہے۔ سو سال سے زائد عرصہ کی تاریخ رکھنے والے اس بازار کے بیوپاری افغانستان کے ساتھ کاروبار کرتے آرہے ہیں۔ پہلے کورونا وبائی صورتحال کے باعث پاک افغان طورخم سرحد کی بندش بھی مصالحہ جات کے کاروبار میں رکاوٹ بنی تھی۔ گذشتہ سال کے پندرہ اگست کے بعد افغانستان میں طالبان نے کنٹرول سنبھالا تو بھی اسی بازار کے مصالحہ جات افغانی خوراک کی نذر نہیں ہوئے۔
پیپل منڈی مصالحہ جات بازار کے نائب صدر حبیب الرحمن کہتے ہیں کہ تقریباً چھ ماہ میں دو کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے، افغانستان کے تاجروں کو پاکستان آنے کے لئے ویزہ آسانی سے نہیں مل رہا ہے جبکہ افغانستان میں بینکنگ نظام معطل ہونے سے بھی کاروباریوں کو رقم منتقلی میں دشواری ہے۔
حبیب الرحمن نے بتایا کہ پہلے دوپہر کے کھانے کے لئے بھی وقت نہیں ملتا تھا جبکہ آجکل کاروبار میں مندی کی وجہ سی تمام دوکاندار فارغ ہیں اور گپ شپ میں مصروف رہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان کو برآمدات ہونے والی اشیاء میں گرم مصالحہ سمیت زیادہ تر چھوٹے اور بڑے گوشت کے پکوان میں استعمال ہونے والے مخصوص مصالحہ جات استعمال ہوتے ہیں۔
بازار کے نائب صدر نے بتایا کہ اس سے قبل بھی افغانستان میں طالبان کی حکومت آئی ہے مگر مصالحہ جات کاروبار اتنا متاثر نہیں ہوا ہے۔ دونوں ممالک کو کاروباری پالیسی جلد وضع کرنے چاہیے تاکہ پہلے سے موجود اسٹاک کی خریدو فروخت ممکن ہوسکے ورنہ اسٹاک کی خرابی کا بڑا خدشہ ہے جس سے کاروبار مزید محدود ہو کررہ جائے گی۔
بازار کے دیگر تاجروں نے بتایا کہ افغانستان کے ساتھ کاروبار کرنے میں زیادہ فائدہ ہے جبکہ مقامی سطح پر مصالحہ جات کی درجن بھر کمپنیاں بنی ہے جو مقامی مارکیٹ میں زیادہ اثر رسوخ رکھتی ہے۔
مذکورہ بازار میں گذشتہ بیس سال سے کاروبار کرنے والے سُرجیت سنگھ کہتے ہیں کہ پہلے افغانستان کے ساتھ ایک ہفتہ میں چار سے پانچ لاکھ روپے کا کاروبار ہوتا تھا جو اب بالکل ختم ہو کر رہ گیا ہے۔
سرجیت سنگھ کے مطابق چھ ماہ قبل افغانستان کے زغفران پچاس ہزار روپے میں فی کلو دستیاب تھے لیکن اب اسکی قیمت ہول سیل مارکیٹ میں ڈیڑھ لاکھ روپے ہوگئی ہے۔
افغانستان کے صوبہ ننگرہار کے درالحکومت جلال آباد میں ہوٹل چلانے والے درویش خان نے بتایا کہ یہاں پر تمام گاہک کھانے میں ذائقہ نہ ہونے کی شکایات کررہے ہیں۔ پہلے پشاور سے مصالحہ جات منگوایا کرتے تھے جسکا ذائقہ یہاں کے لوگوں کے مُنہ کو لگا ہے مگر سرحد بندش اور واضح پالیسی نہ ہونے کے باعث مصالحہ جات کی پاکستان سے درآمدات نہیں ہورہی ہے۔
افغانستان کے پایہ تخت کابل میں بھی خوراک کے مراکز میں ایسی ہی شکایات موصول ہوئی ہیں بیشتر ریسٹورنٹ میں افغانی خوراک کا ذائقہ بھی تبدیل ہوگیا ہے۔ پچاس سالہ رسول شاہ نے بتایا کہ افغانی پلاؤ، کباب، چھوٹے گوشت کے شوقین افراد مصالحہ جات کی وجہ سے ذائقہ میں تبدیلی کا شکوہ کررہے ہیں۔ رسول شاہ کے مطابق تمام پکوان پھیکے پڑ گئے ہیں۔
ملک میں رواں سال مہنگائی کی لہر نے مصالحہ جات کاروبار کو بھی لپیٹ میں لیا ہے۔ مارکیٹ ریٹ کے مطابق ہر سالن میں استعمال ہونے والا تیار گرم مصالہ فی کلو دو سو روپے مہنگا ہوگیا ہے۔ کالی مرچ پانچ سو روپے، زیرہ دو سو روپے اور ہلدی سو روپے فی کلو مہنگا ہوگیا ہے۔ مصالحہ جات میں استعمال ہونے والے اشیاء تقریباً پچاس پینتالیس تک مہنگے ہوگئے ہیں۔ بیوپاری کہتے ہیں کہ بیرون ممالک سے درآمد ہونے والے اشیاء کے نرخوں کو ڈالر کے اونچے اُڑان نے پَر لگا دیے ہیں۔
پاک افغان ٹریڈ کمیٹی کے سربراہ شاہد حسین نے ان تمام تر صورتحال پر بتایا کہ خیبرپختونخوا کے کاروباریوں کا ستر فیصد انحصار افغانستان کے مارکیٹ پر ہیں۔ افغانستان میں کاروبار سے متعلق غیر یقینی صورتحال کا اثر خیبرپختونخوا کے تاجروں پر سب سے زیادہ پڑ رہا ہے، جلد کاروباری پالیسی جاری نہ ہونے سے چند ماہ میں ہر قسم کے کاروبار کو بریک لگ جائے گا۔