‘ایک دن اپنے آنے والی نسل کو کہیں گے کہ یہ پشتو زبان کی قبر ہے’
ناہید جہانگیر
آج بھی یاد ہے جب فرنٹیئر کالج کی پشتو ادب کی پروفیسر مس زبیدہ نے کہا تھا کہ لگتا ہے ایک دن اپنے آنے والی نسل کو قبرستان لے جاکر کہیں گے کہ یہ پشتو زبان کی قبر ہے۔
ہم سب کلاس فیلوز نے پوچھا تھا کہ میڈم کیسے تو انہوں نے جواب میں کہا تھا کہ انگلش کو پڑھنا فخر جبکہ پشتو ادب کو پڑھنا باعث شرم جب محسوس کیا جائے گا تو سمجھو قوم کا زوال شروع ہوگیا ہے اور وہ دن دور نہیں جب اپنی مادری زبان کو کتاب کے اوراق میں ڈھونڈیں گے۔
آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں مادری زبان کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ مادری زبان سے مراد وہ پہلی زبان ہے جو ایک خاص قوم میں پیدا ہونے والا فرد سیکھتا ہے۔ 2000 سے پوری دنیا میں یہ مادری زبان کا دن منایا جا رہا ہے،2008 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قرار داد منظور کی اور اس دن کے بعد یہ دن پوری دنیا میں منایا جاتا ہے۔
ماہرین لسانیات کے مطابق پاکستان میں مختلف لہجوں کے فرق سے 74 زبانیں بولی جاتی ہیں۔ سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان پنجابی ہے جسے 48 فیصد افراد بولتے ہیں جبکہ 12 فیصد سندھی، 10 فیصد سرائیکی، انگریزی، اردو، 8 فیصد پشتو، بلوچی 3 فیصد، ہندکو 2 فیصد اور ایک فیصد براہوی زبان کا استعمال کرتے ہیں۔
جب سے ہوش سنبھالا تھا تو والدہ گھر ہی میں پشتو پڑھاتی تھی تاکہ پشتو گھر میں بولنے کے ساتھ ساتھ لکھنے پڑھنے سے بھی واقف رہیں لیکن آجکل اپنی مادری زبان پڑھنا تو دور کی بات لوگ مذاق بھی اڑاتے ہیں کہ اسکا سکوپ نہیں ہے جب کہ ماہرین کے مطابق بچوں کو اپنی مادری زبان میں تعلیم دینے سے انکی صلاحیت زیادہ نکاری جا سکتی ہیں۔
جہاں دنیا بھر میں لوگ اپنی مادری زبان کو محفوظ کرنے کے لئے جدو جہد کر رہے ہیں وہی دوسری جانب ہمارے ملک میں روز بروز مادری زبانیں اپنی شناخت کھو رہی ہیں۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے بھی مادری زبان کو کافی نقصان پہنچا ہے لوگ اپنی مادری زبان میں ہی دوسری زبانوں کی ملاوٹ کر کر کے اپنی زبان کی خاصیت کھو رہے ہیں۔
مس زبیدہ تو اس زمانے میں لکھنے پڑھنے پر فکر مند تھی لیکن آج کل تو بول چال میں بھی کافی فرق ملنے کو مل رہا ہے۔پشتو زبان میں اُردو اور انگریزی کے الفاظ ملا کر پشتو کے وہ الفاظ اب ڈکشنری میں ملیں گے۔
یہ مسئلہ نا صرف پشتو زبان کے ساتھ ہے بلکہ خیر پختونخوا میں بولی جانے والی ہندکو زبان کے ساتھ بھی ہے۔
نئی نسل نے گھر میں بچوں کے ساتھ اپنی مادری زبان کی جگہ اردو اور جبکہ زیادہ پڑھے لکھے طبقے نے انگریزی شروع کر دی ہے جو نئی نسل کے لوگ ہے انکو اب اپنی مادری زبان کی نا سمجھ آتی ہے نا ہی بول سکتے ہیں۔ ،ہندی اور انگریزی فلمیں اور ڈرامے دیکھ دیکھ کر بول چال میں واضح طور پر فرق آیا ہے،بچے غیر ملکی کارٹون اور گیمز کھیل کھیل کر وہی زبان بولنے لگے ہیں میرے اپنے بھتیجے والد کو بابا پکارتے تھے اب خود ہی سے ڈیڈ پکارتے ہیں۔
اکثر گھروں میں اگر خالص مادری زبان بولی جائے تو بچے کہتے ہیں مشکل الفاظ میں کیوں بات کر رہے ہو۔ اگر مادری زبانوں پر توجہ نا دی گئی تو وہ وقت دور نہیں جب بہت ساری زبانیں ختم ہو جائے گی اور پر تاریخی کتابوں میں ذکر ملے گا یا بزرگ لوگ کہیں گے کہ یہ فلاں زباں انکے آباؤ اجداد بولا کرتے تھے اور بہت میٹھی زبان ہوا کرتی تھی۔