‘حسن خیل قوم مدارس کی خواتین اساتذہ کرام پر فخر کرتی ہے’
شمائلہ آفریدی
کچھ دن پہلے حسن خیل سب ڈویژن کے دارالعلوم "مدرسہ صفیہ اللبنات” میں تیسرے تعلیمی سلسلہ تکمیل ختم بخاری کی دستاربندی کی تقریب میں شرکت کا شرف حاصل ہوا۔ ویسے تو میں سکول، کالج اور پھر یونیورسٹی کی سطح پر مختلف سیمینارز، ورکشاپ اور تقریری مقابلوں میں شرکت کر چکی ہوں لیکن اس تقریب میں شرکت کر کے ایک الگ طرح کا روحانی سکون محسوس کر رہی تھی۔
وہاں پر موجود ختم بخاری کی طالبات سفید چادروں میں لپٹی ہوئی کسی جنت کی حوروں سے کم نہیں لگ رہی تھیں، اور وہ منظر کچھ الگ ہی تھا جب مدرسے کی خواتین اساتذہ کرام کے ہاتھوں طالبات کو سفید چادر پہنائے جا رہے تھے۔
انہوں نے اس موقع پر والدین کو مبارکباد دی اور اس مبارک ڈگری کو دنیا کی عظیم ترین ڈگری قرار دیا۔ قوم کی ایک بڑی تعداد اجتماعی دعا اور روح پرور مناظر دیکھنے کیلئے جوق درجوق آ رہی تھی۔ وہاں میں لوگوں سے کچھ دور بیٹھ گئی اور ان مناظر کو دیکھ رہی تھی، میرا لکھنے کا کوئی ارادہ تو نہیں تھا لیکن لوگوں کا دین و تعلیم سے لگاو، مدرسے کے نظم و نسق، طالبات کی مہمانوں سے محبت، احترام اور علماء کرام کے بیانات سے انتہائی متاثر ہوئی اور مدارس کی خواتین اساتذہ کرام کے اعزاز میں لکھنے پر مجبور ہو گئی۔
بچپن میں جب گاؤں آتی تھی تو زندگی کی دیگر بنیادی سہولیات کی عدم دیستابی کے ساتھ مدارس بھی موجود نہیں تھے۔ گاؤں میں کہیں دور فاصلے پر مساجد میں طلبہ کو قرآن پاک پڑھایا جاتا تھا۔ پھر ایک ایسا دور بھی آیا جب علاقے میں دہشتگردی کی لہر زور پکڑنے لگی، رہی سہی کسر شورش نے پوری کر دی اور علاقہ مزید تاریکیوں میں ڈوب گیا۔
امن قائم ہونے کے کچھ عرصہ بعد علاقے کے مقامی لوگ آباد ہونا شروع ہو گئے، اسی قوم سے تعلق رکھنے والی دین اسلام پر مر مٹنے والی بہادر بیٹیوں نے شہر کے مدارس سے دینی علوم حاصل کر کے قوم میں جاہلیت کی تاریکی دور کرنے کیلئے گھر گھر دعوت دے کر قوم کی بیٹیوں کو پڑھانا شروع کیا، آج انہی اساتذہ کرام کی قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ حسن خیل سب ڈویژن میں 9 مدارس بن چکے ہیں۔ ان میں سے کچھ تو وفاق سے بھی رجسٹر ہو گئے ہیں جن میں سے ایک "مدرسہ صفیہ اللبنات” بھی شامل ہے جو حسن خیل کا سب سے بڑا دار العلوم ہے۔
اس عظیم الشان مدرسے کی بنیاد 2009 میں رکھی گئی اور 2014 میں شعبہ کتب کا کورس شروع کیا گیا، یہاں طالبات کی تعداد چار سو تک ہے، اس مدرسے کے پانچ شعبہ جات سے طالبات ناظرہ، حفظ قرآن، تجوید، ترجمہ، شعبہ کتب میں فارغ التحصیل ہو رہی ہیں۔
دارالعلوم صفیہ اللبنات کی اساتذہ کرام سے ملنے کا شرف بھی حاصل ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ چاروں طرف پہاڑیوں کے بیچوں بیچ مدارس نے جاہلیت کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے، حسن خیل سب ڈویژن کے تمام مدارس کی تعمیر میں حکومت کی کوئی امداد شامل نہیں ہے، شروع شروع میں طالبات سردی گرمی میں ٹینٹوں خیموں کے اندر علم حاصل کرتی رہی ہیں، علاقے کے لوگوں کو مدارس سے بے انتہا عقیدت تھی کہ انہوں نے اپنے زیورات تک چندے میں جمع کئے اور مدارس کی تعمیر کئی سالوں میں مکمل کی، اور آج اساتذہ کی مسلسل جہدوجہد و قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ مدارس سے علم کے چشمے پھوٹنا شروع ہو گئے ہیں۔
اس موقع پر طالبات کے تاثرات بھی سنے، ان کا کہنا تھا اچھا ہوتا کہ یہاں پر عصری تعلیم کیلئے حکومت اقدامات کرتی، ”ہم چاہتی ہیں کہ دینی علوم کے ساتھ عصری تعلیم بھی حاصل کریں لیکن یہاں پر ناقص تعلیمی معیار کی وجہ سے لڑکیوں کی اعلی تعلیم کی خواہش پوری نہیں ہو پاتی۔
یہ دیکھ کر حیران ہوئی کہ پسماندہ علاقے میں حکومت کی سرپرستی کے بغیر انہوں نے اپنی مدد آپ کے تحت مدرسے کی تعمیر اور ایسا نظام بنایا تھا جو قابل تعریف اور فخر کی بات ہے، وہاں کے قبائل کی علم و تعلیم سے عقیدت و احترام کا ثبوت یہ تھا کہ ہر گھر کی بیٹی حافظہ، معلمہ، ناظرہ اور ترجمہ کے ساتھ دینی تعلیم حاصل کر چکی ہے اور یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔
سب ڈویژن حسن خیل علم کا مرکز بن رہا ہے۔ علاقے کے تمام مدارس کی خواتین اساتذہ کو اخراج تحسین پیش کرتی ہوں کہ وہ بغیر حکومتی تعاون اور معاوضہ کے قبائلی علاقوں میں سخت گھریلو امور کے ساتھ ساتھ یہ عظیم کام بھی سرانجام دے رہی ہیں جس سے یہ پورا علاقہ علم کی روشنی سے منور ہوتا جا رہا ہے۔ پوری قوم کیلئے ہماری خواتین اساتذہ کرام قابل فخر ہیں اور سلام ہے ان والدین کو جنہوں نے اپنی بیٹیوں کی احسن طریقے سے تربیت کی اور ان کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا اور لوگوں کی خدمت پر مامور کر دیا۔ قوم ان کو سلام پیش کرتی ہے۔
بس آخر میں یہی کہنا چاہتی ہوں کہ دینی علوم بھی بہت ضروری ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم کی اہمیت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارے علاقے میں سکولز تو موجود ہیں لیکن یہ سکول برائے نام ہیں، ناقص تعلیمی نظام اور حکومت کی عدم توجہی پر افسوس ہے، قوم کے لوگ مل کر عصری تعلیم کے نظام کو بہتر کرنے کیلئے آواز اٹھائیں۔ اگر یہاں کی قبائلی خواتین کو تعلیم و ہنر کے میدان میں موقع دیا جائے تو وہ اپنی صلاحتیوں کی بدولت قوم و معاشرے کو ترقی کی بلندیوں تک پہنچا سکتی ہیں۔