جرائم

پشاور میں خواجہ سرا حسینہ فائرنگ کی وجہ سے عمر بھر کے لیے معذور

رفاقت اللہ رزڑوال

خیبرپختونخوا کے خواجہ سراؤں کا کہنا ہے کہ پشاور کے علاقے خزانہ میں حسینہ نامی خواجہ سرا کو فائرنگ کرکے عمر بھر کیلئے معذور کر دیا گیا لیکن تاحال واقعے میں ملوث ملزمان گرفتار نہیں کئے گئے مگر پولیس کا کہنا ہے کہ ملزمان نے ضمانت قبل از گرفتاری کر رکھی ہے جس کی وجہ سے پولیس کو انہیں پکڑنے کا کوئی قانونی اختیار حاصل نہیں۔
خیبرپختونخوا کے خواجہ سراؤں کی حقوق کی تنظیم ٹرانس ایکشن الائنس کے صدر اور خواجہ سرا فرزانہ ریاض نے پشاور پریس کلب میں پریس کانفرنس کے بعد ٹی این این کو بتایا کہ دس دن قبل تھانہ خزانہ کے حدود میں ملزم اعجاز نے موسیقی کی پروگرام کیلئے جاتے ہوئے خواجہ سراؤں کی گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ کی جس میں حسینہ نامی خواجہ کی ٹانگ میں گولی لگی۔
فرزانہ ریاض کا کہنا ہے کہ ڈاکٹروں نے انہیں بتایا ہے کہ گولی لگنے سے مجروح خواجہ سرا چل پھرنے کے قابل نہیں بن سکے گا جس کی وجہ سے وہ عمر بھر کیلئے معذور ہوگئی۔
اس موقع پر دیگر خواجہ سرا بھی موجود تھیں جنہوں نے کہا کہ ایسے واقعات کا پیش آنا دیگر خواجہ سراؤں کو اپنی تحفظ کیلئے تشویش میں مبتلا کر رکھتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ہر ماہ خواجہ سراؤں کے ساتھ تشدد کے واقعات پیش کیوں آتے ہیں؟
اس پر فرزانہ کا کہنا ہے کہ بیشتر واقعات خواجہ سراؤں سے دوستی نہ کرنے پر سامنے آتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے اکثر ملزمان کی طرف سے خواجہ سراؤں کو دوستی کی پیشکش کی جاتی ہے جسے قبول نہ کرنے پر فائرنگ، تشدد، گینگ ریپ اور دیگر سنگین جرائم کا سامنا کرنی پڑتی ہے۔
انہوں نے خواجہ سراؤں کے خلاف تشدد کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ٹرانس ایکشن الائنس کے مطابق خیبرپختونخوا کے آٹھ اضلاع میں 2015 سے 2021 تک 89 خواجہ سراؤں کو قتل جبکہ اٹھارہ سو کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے جن پشاور، چارسدہ، مردان، صوابی، نوشہرہ، بنوں، سوات اور کوہاٹ شامل ہیں۔
فرزانہ کا کہنا ہے کہ ان سنگین جرائم میں تاحال کسی کو بھی سزا نہیں ہوئی جس کا وہ پولیس کا تفتیشی نظام مورد الزام ٹہراتی ہے۔
فرزانہ ریاض کہتی ہے "اپنی برادری کے تحفظ کیلئے کئی بار آئی جی سے ملاقات کی درخواستیں کی مگر انکے پاس بھی وقت نہیں ہے، اب تک تو وہ سوچ رہے ہیں کہ ہم انسان ہے کہ نہیں اسکے بعد ہمیں وقت دیگا”۔
فرزانہ کہتی ہے ‘آپ دیکھے ناں ، دس دن گزر چکے لیکن پولیس نے میری سٹوڈنٹ(حسینہ) کا ملزم نہیں گرفتار نہیں کیا اور اگر یہ جرم کوئی خواجہ کرتا تو اب تک وہ جیل کے سلاخوں کے پیچھے ہوتا ليکن ہمیں نہیں معلوم کہ پولیس انہیں پکڑنے سے کیوں کتراتے ہیں’۔
تھانہ خزانہ پولیس کے مطابق واقعے کی مقدمہ درج کئی گئی ہے جن میں ملزم اعجاز کے خلاف دفعہ 324 (فائرنگ سے زخمی کرنے) اور 427 (گاڑی کو نقصان) کے دفعات شامل کئے گئے ہیں۔
خزانہ پولیس سٹیشن کے ایس ایچ او عمران خلیل نے ٹی این این کو بتایا کہ خواجہ سراؤں کی جانب سے نامزد ملزم اعجاز صوبے کے دیگر پولیس سٹیشنوں میں مختلف نوعیت کے جرائم کے مقدمات میں مطلوب ہے جن میں قتل مقاتلے، تشدد، چوری اور دیگر جرائم شامل ہیں مگر مذکورہ واقعے میں اس نے عدالت سے قبل از ضمانت گرفتاری حاصل کی ہے۔
عمران خلیل کہتے ہیں ” ملزم یہاں پر کرائے کے گھرمیں رہتے ہیں اور جرائم کرنے کے بعد گھر تبدیل کردیتا ہے جب واردات کئے تو علاقے سے بھاگ گئے جس کے بعد میں نے انکے بھائی کو دفعہ 107 کے تحت گرفتار کیا ، ان کو عدالت نے چھوڑ دیا اور اعجاز نے اپنی بی بی اے کرائی”۔
پریس کلب میں پریس کانفرنس کے دوران خواجہ سرا نینا نے بتایا کہ وہ متاثرہ خواجہ سرا حسینہ کا استاد ہے اور واقعے کے متعلق تھانہ خزانہ کے ایس ایچ او نے انہیں کہا کہ ‘یہ آپ کا ذاتی معاملہ ہے اور پولیس کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں’۔
ایس ایچ او نےاس الزام کی تردید کی اور کہا کہ کسی کے خلاف مقدمہ درج کرنا ہر شہری کا حق ہے اور پولیس کی زمہ داری ہے کہ وہ رنگ، نسل، اور صنف کو دیکھے بغیرمقدمے کو قانون کے مطابق انجام تک پہنچائیں۔
ایس ایچ او عمران کہتے ہیں ‘ہم نے مقدمے میں اپنی تفتیش مکمل کی ہے ، اب متاثرہ فریق کی ذمہ داری ہے کہ اپنی کیس عدالت میں بھرپور طریقے سے لڑیں تاکہ ملزم کو اپنی گناہ کی سزا ملے’۔

خواجہ سراؤں پر تشدد کے واقعات میں ملوث ملزمان کیوں بری ہوجاتے ہیں ؟  اس سوال پر خواجہ سراؤں کے حقوق پر کام کرنے والےغیر سرکاری تنظیم بلیو وینز کے کوارڈینیٹر قمرنسیم نے وجوہات کے بارے میں کہتا ہےپولیس کی ناقص تفتیش کی وجہ سے اب تک کسی بھی تشدد کے واقعے میں ملزم کو سزا نہیں ملی ہے۔
کہتے ہیں ‘جب کوئی خواجہ سرا قتل ہوتا ہے، مقدمے کے بعد پولیس ملزم کو پکڑتی ہے لیکن جب کیس تفتیشی افسر کے پاس جاتا ہے تو وہ اس میں کمزور دفعات لگا دیتا ہےجس کی وجہ سے ملزمان جلد بری ہوجاتے ہیں’۔
دوسرا یہ اکثر واقعات کی پیروی میں دلچسپی نہیں رکھتے ، خواجہ سرا تاریخوں میں پیش نہیں ہوتے اور نہ اپنی کیسز کو فالو کرتے ہیں باوجود اسکے کہ انکے پاس کافی شواہد ہوتے ہیں۔
تیسری بات یہ ہے کہ خواجہ سرا خود اپنے اوپر ہونے والے تشدد پر سمجھوتہ کرکے صلح کردیتے ہیں اور اگر کوئی خواجہ سرا قتل ہوچکا ہو تو انکے خاندان والے پیسے لے کر ملزم کو معاف کردیتے ہیں۔
قمر نسیم نے مطالبہ کیا کہ آئین پاکستان کی رو سے خواجہ سرا معاشرے کے برابر انسان ہیں اور انہیں بھی ریاست وہ تحفظ اور احترام دیں جو دیگر انسانوں کو دیا جاتا ہے تاکہ وہ معاشرے میں اطمینان سے زندگی گزارسکیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button