گل پانڑہ کیلئے یونیورسٹی بند، جامعہ پشاور کو کیا ملا؟
محمد طیب
پشاور یونیورسٹی میں کشمیر ڈے کو پانچ فروری کی بجائے 14 فروری کو منانے اور 14 فروری کو یونیورسٹی کی پبلک پراپرٹی کو ایک کمرشل سرگرمی کے لیے بغیر معاوضہ پیش کرنے کے معاملے نے کئی قانونی سوالات کو جنم دے دیا۔
خیال رہے کہ گزشتہ اک دو روز سے سوشل میڈیا پر پشتو کی معروف گلوکارہ گل پانڑا کے لئے یونیورسٹی کو بند کرنے کا معاملہ زیر بحث ہے تو اس کے خلاف طلبہ احتجاج بھی کر رہے ہیں۔
قانونی ماہرین کے مطابق پشاور یونیورسٹی سمیت خیبر پختونخوا کی کسی بھی یونیورسٹی کے سینڈیکیٹ کے پاس یہ اختیار نہیں کہ وہ پہلے سے نوٹیفائی قومی دن منانے کی تاریخ تبدیل کرے کیونکہ یہ آئین پاکستان، پاکستان کی خارجہ و داخلہ پالیسی سمیت یونیورسٹی ماڈل ایکٹ 2016 کی خلاف ورزی ہے۔ اس طرح کسی بھی یونیورسٹی کے اندر نجی کمرشل اداروں کے لیے تشہیر اور پبلسٹی کے لیے کوئی بھی غیرنصابی سرگرمی بغیر معاوضے کے نہیں ہو سکتی کیونکہ ایک پبلک پراپرٹی کو دیگر نجی اداروں کے کمرشل مقاصد کے لیے استعمال کرنا بھی یونیورسٹی رولز کے منافی اقدام ہے۔
خیال رہے کہ پشاور یونیورسٹی نے چند روز قبل پانچ فروری کو (کشمیر ڈے پر) چھٹی کے حوالے سے ایک اعلامیہ جاری کیا تھا جس میں لکھا گیا تھا کہ پانچ فروری کو جامعہ میں پرچہ ہونے کی وجہ سے کشمیر ڈے منانے کی تقریبات 14 فروری تک موخر کر دی گئی ہیں، جبکہ چودہ فروری کو عام تعطیل کا اعلامیہ جاری کیا گیا۔
ٹی این این نے اس حوالے سے جب قانونی ماہر اور سابق ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا نوید اختر سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ پانچ فروری یوم کشمیر ایک قومی دن ہے جو پہلے ہی سے طے کیا گیا اور یہ ہمارے کشمیر پالیسی کا حصہ ہے لہذا کسی بھی یونیورسٹی سنڈیکیٹ یا انتظامیہ کے پاس یہ قانونی اختیار نہیں ہے کہ وہ کسی قومی دن کو منانے کے لیے اپنی مرضی کی تاریخ طے کریں کیونکہ کل کو کوئی اور خودمختار ادارہ بھی اس طرح کا اقدام کر سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پشاور یونیورسٹی نے پانچ فروری یوم کشمیر کی بجائے 14 فروری کو چھٹی کا اعلامیہ غیرقانونی، آئین، کشمیر پالیسی اور یونیورسٹیز ایکٹ کے خلاف ہے، پانچ فروری کو اسمبلی سے پاس ایک قانون کے تحت منایا جاتا ہے جس طرح 14 اگست، 23 مارچ، قائد اعظم کی یوم پیدائش، علامہ اقبال ڈے وغیرہ ہمارے لیے قومی دن ہیں اس طرح یوم کشمیر بھی ایک قومی دن ہے جو پاکستانی اپنے کشمیری بھائیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے پاکستان سمیت پوری دنیا میں مناتے ہیں اور بھارت کے ظلم اور کشمیر پر ناجائز قبضہ کے حوالے دنیا و دیگر اقوام کو آگاہ کرتے ہیں، ایک قومی دن کی تاریخ تبدیل کرنا خود کشمیر پالیسی اور کشمیر کاز کے ساتھ بھونڈا مذاق ہے، جامعہ پشاور یونیورسٹی انتظامیہ نے پہلے کشمیر ڈے کی تاریخ تبدیل کر کے 14 فروری رکھ دی اور پھر ایک گلوکارہ کو نجی کمرشل ادارے کے لیے یونیورسٹی کی لوکیشن بغیر معاوضے کے حوالہ کر دی جو خود یونیورسٹی رولز اور ریگولیشن کی خلاف ورزی ہے۔
نوید اختر ایڈووکیٹ کا مزید کہنا تھا کہ اسلامیہ کالج یونیورسٹی، پشاور گریژن کلب اور دیگر ایسے تاریخی اور خوبصورت لوکیشنز موجود ہیں جہاں پر کسی بھی نجی کمرشل اداروں کے لیے فلم بندی یا عکس بندی پر معاوضہ لیا جاتا ہے تو پشاور یونیورسٹی بھی ایک تاریخی درسگاہ ہے لہذا یہاں بھی معاوضہ لیا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ سوال یہ نہیں کہ معاوضہ نہیں لیا گیا ہے سوال یہ ہے کہ معاوضہ لیا گیا ہے لیکن کس نے لیا ہے اور کس شکل میں لیا ہے، بغیر معاوضے کے اس طرح کی سرگرمیوں کی اجازت دینا رولز کے خلاف ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یونیورسٹیز خودمختار ادارے ہیں، ان کے پاس اجازت دینے کا اختیار موجود ہے لیکن ایسی سرگرمیاں جن سے فحاشی اور عریانی پھیلتی ہو تو پھر اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی، فلم بندی اور عکس بندی پر پابندی نہیں ہے اور نہ ہی یہ غیرقانونی اقدام ہے کیونکہ ہمارے ارتغرل ڈرامے کی زندہ مثال موجود ہے جس کی فلم بندی اور عکس بندی تاریخی جگہوں پر ہوئی ہے لہذا پشاور یونیورسٹی بھی ایک تاریخی درسگاہ ہے، یہاں پر کسی ڈرامے اور فلم کی عکس بندی غیرقانونی نہیں ہے بشرطیکہ اس میں طلبہ کے تعلیمی ماحول یغنی کلاسز اور پڑھائی متاثر نہ ہو اور ساتھ فلم بندی یا عکس بندی سے فحاشی اور عریانی نہ پھیلتی ہو۔
جامعہ پشاور کے تعلیمی بلاکس کے غیرنصابی سرگرمیوں جیسے ماڈلنگ اور شوٹنگ کے لئے استعمال کے خلاف اسلامی جمعیت طلبہ نے ہاسٹل اے بلاک سے پیوٹا چوک تک احتجاجی ریلی نکالی۔ احتجاجی ریلی کی قیادت یونیورسٹی کیمپس پشاور کے جنرل سیکرٹری طاہر اللہ اور ناظم جامعہ تقویم الحق کررہے تھے۔ ریلی میں بڑی تعداد میں طلبہ نے شرکت کی اور انتظامیہ کے خلاف نعرے بازی کی۔
اس موقع پر طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ جامعہ پشاور جیسی قدیم علمی درسگاہ کو شوٹنگ کے لئے بند کرنا افسوس ناک ہے، انتظامیہ اور حکومت ایک جانب یونیورسٹی کو فنڈ دینے اور علمی ماحول پروان چڑھانے سے قاصر ہے تو دوسری جانب غیرضروری پروگرامات کے لئے یونیورسٹی کو بند کر رہی ہے جو قابلِ مذمت ہے۔
انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی انتظامیہ کا علم اور تحقیق کی بجائے لغویات کے ذریعے یونیورسٹی کا امیج بہتر کرنے کا موقف مضحکہ خیز ہے، انتطامیہ یونیورسٹی کی حدود میں ہراسمنٹ، کار ڈرافٹنگ، آؤٹ سائیڈرز کو کنٹرول کرنے کی بجائے شوٹنگ اور دیگر غیرضروری کاموں میں مصروف ہے۔
مقررین نے مطالبہ کیا کہ تعلیمی اداروں کے علم و تحقیق کی بجائے لغویات کے لئے استعمال کو بند کیا جائے جبکہ جامعہ پشاور میں اس قسم کی سرگرمیوں کی اجازت دینے والوں کے خلاف بھرپور کاروائی کی جائے۔