آزمائش: ”میں بری بنی تو اس کے دل میں بھی برا خیال پیدا ہوا”
عیشا صائمہ
نیلے آسمان پر اچانک سے بادلوں نے اپنا ڈیرا جما لیا۔ راضی جو صبح سے بادلوں اور سورج کی آنکھ مچولی دیکھ رہی تھی، دل میں دعائیں مانگ رہی تھی آج موسم بہت خوشگوار ہو جائے تاکہ وہ نبیل سے ملے تو ان لمحوں کو یاد گار بنا لے۔ وہ بار بار اپنا موبائل چیک کر رہی تھی۔ نبیل صبح گڈ مارننگ کے پیغام کے بعد غائب تھا۔
عموماً کال وہ خود ہی کرتی تھی لیکن آج اس کا دل چاہ رہا تھا نبیل خود اس سے بات کرے۔ جب کافی دیر تک نبیل نے اسے جواب نہ دیا تو وہ کال ملانے لگی۔ پہلی بیل پر نبیل نے کال پک کی کہاں ہو تم؟ راضی نے نبیل سے پوچھا۔ میں مال میں ہوں تم آ جاؤ، ہم اکٹھے لنچ کریں گے۔ راضی نے کالج کی آخری دو کلاسز نہیں لیں اور نبیل سے ملنے مال پہنچ گئی۔ کچھ دیر میں وہ گیگا مال میں نبیل کے ہمراہ خوش گپیوں میں مصروف تھی۔ نبیل نے اسے ویلنٹائن ڈے کے لئے شاپنگ کرا نے کے بعد ملحقہ ریسٹورنٹ میں لنچ کرایا۔ دونوں جب گاڑی میں بیٹھ رہے تھے تو انہیں نبیل کے چچا نے دیکھ لیا لیکن انہوں نے اس وقت نبیل کو کچھ کہنا مناسب نہ سمجھا۔
کچھ دیر میں راضی بھی گھر پہنچ گئی اور بہانہ لگایا کہ حریم کے ساتھ شاپنگ کے لئے گئی تھی اس لئے دیر ہو گئی، ادھر جب نبیل گھر گیا تو اس کے چچا غصے میں ٹہل رہے تھے۔ اس کے آتے ہی اس پہ برس پڑے۔ ہم نے تم پر احسان کیا تمہیں پال کر بڑا کیا اس لئے کہ اس دولت کو لڑکیوں پہ اڑاتے پھرو۔ چچا ہوا کیا ہے؟ میں اپنی بیٹی کی شادی تم سے کراؤں گا اس بات کو ذہن نشین کر لو۔ تم میری نرمی کا ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہو میں تمہارے باپ کا حصہ بھی تم سے لے لوں گا۔ چچا کی باتیں سن کر نبیل نے ان سے وعدہ کیا وہ ان کی بیٹی شزا سے ہی شادی کرے گا۔ وہ تو میرے دوست کی بہن ہے اچانک مال میں مل گئی تو مروتاً اسے چائے کا پوچھ لیا۔ چچا کو مطمئن کرنے کے بعد وہ راضی کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ کیسے اسے جال میں پھنسا کر دوست کے گھر تک لانا ہے۔
ادھر راضی گھر پہنچ کر اپنی بہن نمرہ کو بڑے فخر سے بتا رہی تھی دیکھا میں کیسے نبیل کو بے وقوف بنا رہی ہوں۔ وہ تو جان چھڑکتا ہے مجھ پر۔ اس کی بے وقوفی پہ فدا جاؤں، ہر روز کوئی نہ کوئی گفٹ مجھے دے رہا ہوتا ہے۔ مجھے اور کیا چاہیے؟ مفت میں میں اس سے سب وصول کر رہی ہوں۔ نمرہ کافی دیر اس کی باتیں سننے کے بعد بولی۔ تم ہم سب کو بے وقوف بنا رہی ہو یا اپنے آپ کو؟ افسوس ہے مجھے تمہاری سوچ پر اور حیرت ہے تم پر! تمہیں کب سے منع کر رہی ہوں تم یہ سب چھوڑ دو، کیا تم نے کبھی یہ سوچا ہے وہ تم سے اس کی قیمت بھی وصول کر سکتا ہے۔ راضی نے نمرہ کو ایک تھپڑ رسید کیا۔ مجھ سے چھوٹی ہو چھوٹی بن کے رہو، دیکھ لینا آپی کسی دن میری باتوں کو یاد کر کے روؤ گی۔ والدین نے تمہارا نام راضیہ کیوں رکھا تھا؟ راضی رہنے والی… تم رب کی رضا میں خوش نہیں ہو، اپنا نام بدل لو یا حرکتیں، یہ کہہ کر نمرہ رکی نہیں بلکہ ماں کے کمرے میں چلی گئی۔
نمرہ کی باتوں کا راضی پر کچھ اثر تو ہوا تھا۔ کچھ دن وہ نبیل سے نہ ملی لیکن پھر نبیل کے کہنے پر اس سے ملنے کا وعدہ کر لیا۔ آج اچانک چھٹی کے وقت نبیل کو اپنے کالج کے باہر کھڑا دیکھ کر دنگ رہ گئی۔ وہ اسی کی طرف آ رہا تھا۔ چلو میں تمہیں لینے آیا ہوں جانتی ہو کتنے دن ہو گئے تمہارا چہرہ نہیں دیکھا۔ آج مل بیٹھیں گے اور خوب باتیں کریں گے۔ پہلے تم یہ میرا دیا ہوا سوٹ پہنو گی پھر میں تمہیں اپنے گھر لے کے جاؤں گا۔ راضی خوشی خوشی اس کے ساتھ چل دی۔ اسے مجھ سے محبت نہ ہوتی تو مجھے لینے کیوں آتا؟ نمرہ تو خواہ مخواہ مجھے اندیشوں میں مبتلا کر رہی تھی۔ آج نبیل اسے کسی دوست کے گھر لے کر گیا اور خود کچھ دیر بعد آنے کا کہہ کر کہیں چل دیا۔ راضی تیار ہو کر کمرے میں ٹہل رہی تھی۔ تب اچانک کھڑکی کے باہر اسے باتوں کی آواز سنائی دی۔ جو باتیں اس نے سنیں وہ راضی کو ہوش میں لانے کے لئے کافی تھیں۔
اس سے پہلے کہ نبیل اندر آتا وہ صحن کی طرف کھلنے والے دروازے سے نکل کر بیرونی دروازے پر پہنچ کر دیکھنے لگی وہ وہاں سے نکلے کیسے؟ اس نے گیٹ کے ساتھ والی دیوار پر چڑھ کر سڑک کی طرف چھلانگ لگا دی۔ اور سرپٹ دوڑنے لگی۔ پھر بس میں سوار ہو کر اپنے اسٹاپ تک پہنچی۔ گھر آتے آتے سردی کے باوجود وہ پسینے میں شرابور ہو چکی تھی۔ نمرہ اس کی ایسی حالت پہ پریشان ہو گئی۔ کیا ہوا آپی کچھ تو بتاؤ؟ وہ اس کے لئے پانی لے کر آئی۔ نمرہ تم نے ٹھیک کہا تھا وہ مجھے تحائف اس لئے لے کر دیتا رہا کہ میری عزت خاک میں ملا سکے۔ آج14 فروری کا دن تھا اس نے مجھ سے کہا تھا میرے گھر رشتہ بھیجے گا لیکن وہ مجھے اپنے دوست کے گھر لے گیا تاکہ مجھ سے میری ہی قیمت وصول کر کے ہمیشہ کے لئے مجھے چھوڑ دے۔ وہ فوراً سجدے میں گر گئی اور گڑاگڑا کر رب سے معافی مانگنے لگی۔ میرے رب میں حرام رشتے کی طرف گئی۔
سچ کہا گیا ہے قرآن پاک میں (مفہوم) پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کے لئے ہیں۔ اگر میری نیت صاف ہوتی تو وہ شخص بھی میرے ساتھ غلط کرنے کا ارادہ نہ کرتا۔ میں بری بنی تو اس کے دل میں بھی برا خیال پیدا ہوا۔ شکر ہے میرے مالک مجھے اس برے انسان سے بچا لیا۔ میں آج کے دن وعدہ کرتی ہوں کہ آج کے بعد میں اس رستے پہ چلوں گی جو آپ کی طرف آتا ہے۔ اور فائق سے منگنی کے بندھن میں بندھ کے ہمیشہ کے لئے اس کی ہو جاؤں گی، میں سمجھ چکی ہوں جو میرے لئے حلال اور جائز ہے اسی میں میرے لئے سکون ہے، یہ ویلنٹائن ڈے بے حیائی کے سوا کچھ نہیں!
نوٹ: محولہ بالا تحریر اک افسانہ ہے جو عیشا صائمہ نے ویلنٹائن ڈے کی ماسبت سے لکھا ہے، اس میں کراد یا واقعات کی مماثلت کو اتفاقیہ ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔