کیا جی ٹی ایس اور پنک بس کی طرح بی آر ٹی سروس بھی جلد ختم ہو جائے گی؟
ناہید جہانگیر
”اپنی زندگی میں بہت سی سرکاری بسیں دیکھ لیں، کہاں ہیں؟ سب ختم، یہ بی آر ٹی منصوبہ بھی ایک دن کرپشن اور کم آمدنی اور زیادہ اخراجات کی وجہ سے ختم ہو جائے گا۔”
پشاور کے رہائشی 65 سالہ گل محمد جو پیشے کے لحاظ سے ڈرائیور ہیں، ان کے مطابق بی آر ٹی منصوبے سے ان کا اور ان کے جیسے اور پبلک ٹرانسپوٹرز کا کاروبار خراب ہو گیا ہے کیونکہ گورنمنٹ انہیں مجبور کر رہی ہے کہ اپنی گاڑیاں نیلام کر دیں، ”یہ منصوبہ ناکام ہے اور ہو گا کیونکہ پرانے زمانے میں جی ٹی ایس بسیں ہوتی تھیں، وہ اب کہاں ہیں؟ اسی طرح مردان میں ایک منصوبہ تھا پنک بس کے نام سے وہ بھی ختم ہو گیا، وہ دن دور نہیں کہ بی آر ٹی سروس بھی جلد ختم ہو جائے گی۔”
گل محمد کی بات سے اختلاف کرتے ہوئے سینئر صحافی امین مشال، جنہوں نے سب سے زیادہ کام بی آر ٹی پروجیکٹ کی خامیوں اور خوبیوں پر کیا اور ان کی کافی رپورٹس کا نوٹس بھی لیا گیا، ان کا کہنا تھا کہ یہ بات درست ہے کہ بی آر ٹی نے تمام لوگوں کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ بی آر ٹی میں ہی سفر کریں، ”پشاور میں جتنی بھی لوکل ٹرانسپورٹ جیسے بسیں ویگن وغیرہ تھے ان کو نیلام کر کے ختم کر دیا گیا ہے، عام لوگوں کے پاس کوئی دوسرا آپشن ہے ہی نہیں جسے وہ استعمال کر سکیں۔
لیکن جہاں تک پنک بس سروس کی بات ہے تو اس کے ساتھ بی آر ٹی کو لنک کرنا ٹھیک نہیں ہے، وہ صرف خواتین کے لئے مختص تھی اور پشتونوں کی روایت کے مطابق کوئی بھی خاتون مرد کے بغیر کہیں بھی سفر نہیں کرتی جس کی وجہ سے وہ منصوبہ ناکام ہوا اور حکومت نے چاپان کی وہی پنک بسیں محکمہ تعلیم کو سپرد کر دیں۔
بی آر ٹی سروس خواتین کے لئے بہت ہی محفوظ ہے کوئی ہراسمنٹ نہیں ہوتی، بس میں داخل ہونے کے لئے خواتین کا راستہ بھی مردوں سے الگ ہے۔”
امین مشال نے غلط معلومات اور افواہوں کے حوالے سے بتایا کہ اکثر سننے کو ملتا ہے کہ اب اس سروس کو مزید وسیع کیا جائے گا جیسے شبقدر یا چارسدہ وغیرہ تو لوگوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ یہ منصوبہ صرف شہر کے لیے ہے نا کہ دور دراز علاقوں کے لیے، بالکل کامیاب منصوبہ ہے جس میں 2 لاکھ سے زیادہ لوگ روزانہ سفر کرتے ہیں لیکن اس منصوبے کو تکمیل تک پہنچانے کے لئے 100 ارب سے زیادہ کا جو قرضہ لیا گیا ہے اس کا کیا ہو گا کیونکہ ڈالر کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے یہ 100 ارب قرض مزید بڑھے گا، ”ناکام اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ حکومت نے یہ دعوی کیا تھا کہ بی آر ٹی کی مد میں کوئی سبسڈی نہیں دی جائے گی اور اس منصوبے سے اتنی آمدنی حاصل ہو گی کہ اپنا خرچہ بھی خود اٹھائے گا، لیکن افسوس اپنا خرچہ کیا اس منصوبے نے تو حکومت سے ایک سال میں 2 ارب سے زیادہ سبسڈی کی مد میں لئے ہیں اور محکمہ ٹرانسپورٹ اس کا خرچہ بھی برداشت کر رہا ہے جس کو ناکامی سے جوڑا جا سکتا ہے۔”
دوسری جانب روزینہ بی بی کہتی ہیں کہ وہ ایک سرکاری سکول میں آیا ہیں، بی آر ٹی سروس سے کافی خوش ہیں، گل محمد کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ صرف افواہیں ہیں کہ سروس بند ہو جائے گی، لوگ کہاں سے کہاں تک پہنچ گئے لیکن ہمارے لوگ اپنے فائدے اور مفاد کے لئے اچھی چیز پر بھی تنقید کرتے ہیں۔
روزینہ نے بتایا کہ جب وہ بی آر ٹی سروس سے پہلے پبلک ٹرانسپورٹ میں جاتی تھیں تو بس سٹاپ سے بس تک اور بس سے اترنے تک ہراسمنٹ سمیت کئی مسائل سے دوچار ہوتی تھیں، ”مرد خواتین کے لئے مختص سیٹ پر بیٹھ جاتے تھے اور خواتین کھڑی رہتی تھیں، اب بی آر ٹی میں اگر خواتین کی سیٹ خالی بھی ہو تو مرد اس پر بیٹھنے کی جرت نہیں کر سکتے۔”
سیکنڈ ائیر کی طالبہ حرا نے روزینہ کی بات کو آگے لے جاتے ہوئے بتایا کہ بی آر ٹی سروس منصوبے سے لے کر ابھی شروع ہونے تک مختلف افوہوں اور غلط معلومات کی زد میں ہے جیسے یہ منصوبہ کبھی بھی مکمل نہیں ہو گا، پھر روڈ سٹرکچر درست نہیں، بسیں پاکستانی ٹمپریچر یا حالات کے مطابق نہیں ہیں اس لئے آگ لگ جاتی ہے، کوئی کہتا ہے کہ پشاور میں رش اب بھی کم نہیں ہوا، یہ سب صرف تنقید ہی ہے اور کچھ نہیں، ”جہاں تک ٹرانسپوٹرز کی بات ہے تو وقت کے ساتھ ساتھ ہر چیز میں جدت آتی ہے، پہلے تانگہ میں لوگ سفر کرتے تھے پھر چار پہیوں والی گاڑیاں آ گئیں اب ریپڈ بس سروس کا زمانہ ہے، افواہیں نا پھیلائیں بلکہ وقت کے ساتھ اپنی سوچ بھی بدلیں۔”
پشاور ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) کے ترجمان محمد عمیر خان نے بتایا کہ بی آر ٹی بسوں میں روزانہ کی بنیاد پر ڈھائی لاکھ لوگ سفر کرتے ہیں اور خواتین کے سفر کرنے میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے جس میں خاص کر نوکر پیشہ خواتین اور طالبات شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جہاں تک منفی پروپیگنڈہ کا تعلق ہے تو بی آر ٹی ایک بہت بڑا پروجیکٹ ہے اور گورنمنٹ نے بہت ہی اچھے طریقے سے شروع کیا ہے، منفی پروپیگنڈہ کرنے میں سیاسی حلقوں سمیت کئی عناصر شامل ہوتے ہیں جن کا کام ہی افواہیں پھیلانا ہے، ”اگر یہ ناکام پروجیکٹ ہوتا تو روزانہ ڈھائی لاکھ لوگ اس میں سفر نا کر رہے ہوتے۔”
لوکل ٹرانسپورٹ سے وابستہ لوگوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس سروس سے وہ بے روزگار ہو گئے ہیں لیکن دوسری جانب ترجمان نے بتایا کہ اس پروجیکٹ سے تقریباً 3 ہزار لوگوں کو روزگار مل چکا ہے، سکھ اور عیسائی برادری سے بھی افراد عملہ میں موجود ہیں۔
بی آر ٹی بسوں میں آئے روز چوری کے واقعات کے حوالے سے محمد عمیر خان نے کہا کہ جہاں ڈھائی لاکھ لوگ روزانہ سفر کرتے ہیں وہاں ایک آدھ ناخوشگوار واقعہ بھی پیش آ سکتا ہے، ”ہر سٹیشن پر 700 سے زیادہ کیمرے لگے ہیں جبکہ ہر بس میں 2 سے 3 کیمرے نصب ہیں، ابھی تک جتنی بھی شکایات درج کی گئی ہیں ان پر ایکشن لیا گیا ہے، سی سی ٹی وی فوٹیج پولیس کو دی گئی ہیں۔”
بی آر ٹی ترجمان محمد عمیر کے کہنے کے مطابق جب منصوبہ شروع کیا گیا تھا تب بھی طرح طرح کی افواہیں تھیں جن میں کوئی صداقت نہیں تھی، وقت کے ساتھ ساتھ عوام کو پتہ چل گیا کہ وہ صرف پروپیگنڈے تھے، دو تین مہینے پہلے بھی ایک جھوٹی خبر وائرل ہوئی تھی کہ بی آر ٹی کرایہ میں اضافہ ہو گیا ہے، لوگوں کو چاہئے کہ غلط افواہوں پر کان نا دھریں، حقیقت کیا ہوتی ہے وہ بہت جلد ان کے سامنے آ جاتی ہے۔