تعلیم

نوشہرہ کی 24 سالہ لیلیٰ: پاکستان میں ایمازون کی اولین اہلکاروں میں سے ایک

خالدہ نیاز

نوشہرہ کی دور افتادہ گاؤں نادان شہید کلے سے تعلق رکھنے والی لیلیٰ ایمازون میں کام کرنے والی خیبر پختونخوا کی اولین خواتین میں سے ایک ہیں۔ 24 سالہ لیلیٰ نے دو سال قبل پشاور میں ایمازون کی ایک پرائیویٹ کمپنی میں کام کرنا شروع کیا اور اب وہ اس حوالے سے کافی تجربہ رکھتی ہیں۔

ورچوئل اسسٹنٹ اور گرافک ڈیزائنر کی حیثیت سے کام کرنے والی لیلیٰ نے سوفٹ ویئر انجینئرنگ میں بی ایس کی ڈگری حاصل کی ہے اور دو سال سے ایمازون کے ساتھ کام کر رہی ہیں۔

ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے بات چیت کے دوران لیلیٰ نے بتایا کہ شروع میں لگ رہا تھا کہ اس فیلڈ میں کام کرنا بہت مشکل ہے تاہم اب ایمازون پر ہنٹنگ کرتے ہوئے بہت مزہ آتا ہے اور روزانہ نئی چیزیں بھی سیکھنے کو ملتی ہیں۔

لیلیٰ نے بتایا، ”ہمارے ہاں لڑکیوں میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ہے لیکن گھر والوں کی جانب سے بھی لڑکیوں کو لڑکوں کے ساتھ کام کرنے سے منع کیا جاتا ہے، اس کے علاوہ لڑکیاں انجینئرنگ اور باقی سائنس سبجیکٹ میں ڈگری تو لے لیتی ہیں لیکن پھر وہ فیلڈ میں نہیں آتیں کیونکہ ان کو مواقعوں کا بھی اس طرح سے پتہ نہیں چلتا کہ کس طرح وہ اپنی پڑھائی کو پریکٹیکل فیلڈ میں بروئے کار لا سکتی ہیں، دوسرا اہم مسئلہ ٹرانسپورٹ کا بھی ہے کہ اکثر لڑکیاں ٹرانسپورٹ کی وجہ سے نوکری کرنے سے کتراتی ہیں۔”

‘پاکستان میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی فیلڈ میں خواتین اس لیے کم ہیں کیونکہ مرد ان کو آگے آنے نہیں دیتے اور دوسری بات یہ ہے کہ عموماً سمجھا جاتا ہے کہ یہ فیلڈ خواتین کی نہیں ہے۔’ لیلیٰ نے بتایا۔

ایمازون پہ کیسے کام کیا جا سکتا ہے؟

لیلیٰ کے مطابق ایمازون ای کامرس کا ایک پلیٹ فارم ہے جہاں پروڈکٹ کی خریدو فروخت ہوتی ہے، سب سے پہلے اس میں ایک اکاؤنٹ بنانا ہوتا ہے اپنی پاکستانی تفصیلات پہ، اکاؤنٹ بن جانے کے بعد پروڈکٹ ہنٹ کرنا پڑتا ہے، پروڈکٹ کے انتخاب میں یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ کون سی پروڈکٹ بہترین ہے، اس کی سیل اچھی ہے اور اس پروڈکٹ پہ مقابلہ کم ہے، اس کے بعد اس پروڈکٹ کی سورسنگ کی جاتی ہے کہ علی بابا، علی ایکسپریس یا باقی کمپنیوں سے ہمیں سستے دام مل سکیں، جتنا کم ہمیں دام میں ملے گا اتنا ہی اس سے ہمیں فائدہ مل سکتا ہے، اس کو سورس کرنے کے بعد ایمازون پر لسٹ کیا جاتا ہے، لسٹ کے بعد شپمنٹ بنانا ہوتی ہے اور اس کی انوینٹری مانگنا ہوتی ہے متعلقہ کمپنی سے۔

لیلیٰ کے مطابق پروڈکٹ لائیو ہو جانے سے پہلے لسٹنگ اور تصاویر وغیرہ ڈالیں گے اور ٹائٹل بھی بنائیں گے، پھر رینکنگ کریں گے پروڈکٹ کی، لوگوں سے ریویو لیں گے اور پھر روزانہ کی بنیاد پر اس کی سیل کو بھی دیکھنا ہوتا ہے۔

خیال رہے آج پاکستان سمیت پوری دنیا میں سائنس اور ٹیکنالوجی میں خواتین کا عالمی دن منایا جا رہا ہے جس کا بنیادی مقصد ان شعبوں میں خواتین کی شمولیت کی اہمیت کو اجاگر کرنا اور ان کے مسائل کو اجاگر کرنا ہے۔

اقوام متحدہ نے سائنس میں خواتین کے خلاف صنفی امتیاز کو ختم کرنے کے اقدامات اپنے 2030 تک ایجنڈے میں شامل کیے ہیں۔ ڈان کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں سائنس کی مختلف فیلڈز میں تحقیق سے وابستہ خواتین کی تعداد 30 فیصد ہے۔

یاد رہے ایمازون دنیا کی سب سے بڑی اور اہم ٹیکنالوجی کمپنیوں میں سے ایک ہے، ایمازون نے مئی 2021 میں پاکستان کو اپنی سیلرز لسٹ میں شامل کیا ہے جس کے بعد سے پاکستانی بھی ایمازون پر اپنی اشیاء فروخت کر سکتے ہیں۔

اپنی مشکلات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے لیلیٰ نے بتایا کہ ان کو زیادہ مشکلات آنے جانے میں درپیش ہوتی ہیں کیونکہ ان کا دفتر گھر سے بہت دور ہے تاہم وہ ایمازون فیلڈ میں مشکلات کے باوجود آگے جانا چاہتی ہیں کیونکہ اس کو سیکھنے کے بعد ایک لڑکا یا لڑکی گھر بیٹھے بھی بہ آسانی اچھی خاصی کمائی کر سکتی ہے۔

خیبر پختونخوا میں تین ہزار خواتین کو ڈیجیٹل سکلز دیئے جا رہے ہیں

خیال رہے خیبر پختونخوا حکومت کے آئی ٹی بورڈ نے بھی ”انکلوژن آف وومن ان دی ڈیجیٹل اکانومی” کے نام سے ایک منصوبہ شروع کیا ہے جس کے تحت صوبے کی 3000 خواتین کو ڈیجیٹل مارکیٹنگ، گرافک ڈیزائننگ، ورڈ پریس ڈیزائننگ، کانٹینٹ رائٹنگ اور ڈیجیٹل پروڈکٹیویٹی ٹولز میں اس قابل بنایا جا رہا ہے کہ وہ اپنا کام کر شروع کر سکیں۔

لیلیٰ سے اتفاق کرتے ہوئے ڈائریکٹوریٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ساتھ منسلک نادیہ خان نے بتایا کہ خیبر پختونخوا میں سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں کام کرنے والی خواتین کا کوئی ڈیٹا موجود نہیں ہے جس کی بہت ضرورت ہے کیونکہ ڈیٹا کے بغیر ہم صرف اندازے ہی لگا سکتے ہیں اور ہم پالیسی اور پلاننگ پر اس طرح سے کام نہیں کر سکتے جس طرح کرنا چاہئے، اس کے علاوہ یہ بھی پتہ نہیں لگایا جا سکتا کہ کس شعبے میں کتنی خواتین موجود ہیں اور صنفی امتیاز کو ختم کرنے کے لیے کس طرح آواز اٹھانی ہے۔

سائنس اور ٹیکنالوجی میں رول ماڈلز خواتین دیکھنے کو نہیں ملتیں

نادیہ خان نے بتایا کہ ہمارے صوبے میں سائنس اور ٹیکنالوجی میں اس طرح کی خواتین رول ماڈلز بھی نہیں ہیں کہ جن کو بنیاد بنا کر ہم دوسری لڑکیوں کی حوصلہ افزائی کر سکیں کہ وہ بھی اس فیلڈ میں آئیں۔

خواتین اس فیلڈ میں کم کیوں ہیں اس حوالے سے بات کرتے ہوئے نادیہ خان نے کہا کہ ہماری روایتی سوچ کی وجہ سے خواتین نہیں آتیں اس فیلڈ کی جانب کیونکہ اگر دیکھا جائے تو یونیورسٹی اور کالج لیول پر سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں لڑکیاں بہت کم ہوتی ہیں پھر اگر وہ ڈگری بھی لے لیتی ہیں تو فیلڈ میں آنے کے ان کے فیصلے کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی اور فیلڈ میں بھی ان کو لانے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے، ”میں یہاں ایک بات کروں گی میڈیکل فیلڈ میں بہت لڑکیاں آتی ہیں لیکن جب ان کی شادیاں ہو جاتی ہیں تو بہت کم تعداد ایسی ہوتی ہے جو اپنی نوکریوں کو برقرار رکھ پاتی ہیں، اس سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں خواتین کو نہیں آنا چاہیے۔”

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button