جرائم

صوابی: توہین مذہب کے الزام میں میونسپل دفتر پر دھاوا، واقعے کی اصل کہانی کیا ہے؟

عبدالستار

گزشتہ روز ضلع صوابی کی تحصیل رزڑ کے علاقہ شیواہ اڈاہ میں ایک معمولی افواہ یا غلط فہمی اس وقت کسی ناخوشگوار واقعے اور اس کے نتیجے میں ملک کی بدنامی کا باعث بن سکتی تھی جب تحصیل میونسپل اتھارٹی کے آفیسر پر توہین مذہب کا الزام لگانے کے بعد عوام نے تحصیل آفس پر دھاوا بول دیا تھا لیکن پولیس نے بروقت کارروائی کر کے ٹی او آر فرمائش گل کو محفوظ مقام پر منتقل کر دیا جبکہ ان کے دوسرے ساتھی پر مشتعل ہجوم نے تشدد کیا لیکن اسے بھی مقامی علماء اور پولیس نے بچا لیا۔

ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں ڈی ایس پی تحصیل رزڑ شفیع الرحمن نے بتایا کہ گزشتہ روز بدھ کو شیوہ اڈہ بازار میں افواہ پھیلائی گئی تھی کہ تحصیل میونسپل اتھارٹی رزڑ کے آفیسر 55 سالہ فرمائش گل توہین مذہب کا مرتکب ہوا ہے جس پر لوگ مشتعل ہو کر تحصیل آفس کے دفتر پر حملہ آور ہوئے لیکن پولیس کو بروقت اطلاع مل گئی تھی کہ اس طرح بازار میں افواہ گردش کر رہی ہے جس کے بعد پولیس نے ٹی او آر فرمائش گل کو محفوظ جگہ پر منتقل کر دیا جبکہ مقامی مشران اور علماء کرام کی مدد سے مشتعل ہجوم کو اس یقین دہانی پر منتشر کر دیا گیا کہ اگلے دن تک ہمیں مہلت دی جائے تاکہ مطلوبہ شخص سے معلومات حاصل کی جا سکیں۔

ڈی ایس پی رزڑ کے مطابق تحصیل آفس کے ایک اہلکار گھبرا کر اپنے آپ کو بچانے کی کوشش میں بھاگ رہا تھا جسے مشتعل ہجوم نے مطلوبہ شخص سمجھ کر اس کی پٹائی شروع کر دی جو فوری طور پر پولیس اور علماء کرام نے بچا لیا اور لوگوں کو تسلی دی کہ یہ وہ شخص نہیں ہے جسے بعد میں لوگوں نے پولیس کے حوالے کر کے ریسکیو کیا۔

ڈی ایس پی شفیع الرحمن نے کہا کہ عوام کو منتشر کرنے کے بعد تحصیل اہلکار فرمائش گل کو مقامی علماء اور مشران کے ساتھ بٹھایا گیا جس نے علماء کرام کو یقین دہانی کرائی کہ وہ توہین مذہب کا سوچ بھی نہیں سکتے جبکہ بازار میں لوگوں سے ٹیکس اور جرمانے اکٹھے کرتے ہیں اور اکثر لوگوں کے ساتھ تو تو میں میں ہو جاتی ہے اور اگر کسی کو کوئی سخت الفاظ کہے ہوں  تو وہ بلڈپریشر کے مریض ہیں اور اس کی بھی ہر قسم تسلی دینے کے لئے تیار ہیں جس پر علماء کرام نے ان سے کہا کہ اگر آپ سے خطا میں بھی کوئی الفاظ سرزد ہوئے ہیں تو اس کا بھی شرعی راستہ ہے جو آپ کو اپنانا ہو گا۔

ڈی ایس پی رزڑ کے مطابق اب تک یہ معلوم نہ ہو سکا کہ کس نے یہ بات تحصیل آفیسر کے خلاف کی تھی، نہ کسی کے پاس ویڈیو یا آڈیو ثبوت موجود ہیں لیکن سنی سنائی بات یہاں تک پہنچی کہ لوگ اکٹھے ہو کر مشتعل ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ مقامی علماء اور عمائدین نے بروقت کردار ادا کر کے مسئلے کو سلجھا دیا، واقعے میں کسی بھی فریق کے خلاف مقدمہ درج نہیں کیا جبکہ معاملے کو علماء اور عمائدین کی کوشش سے سلجھا لیا گیا۔

انہوں نے کہا مذکورہ تحصیل اہلکار نے یہاں پر نوکری کے کئی سال گزارے ہیں اور اب ان کی سروس پوری ہونے میں دو ماہ باقی ہیں۔

شفیع الرحمن نے بتایا کہ پولیس تفیتش کے بعد جس نتیجے پر پہنچی ہے تو صرف مذکورہ شخص کے خلاف بازار میں کسی شخص نے افواہ پھیلائی اور لوگوں کو اکسایا جبکہ حقیقت میں ایسا کچھ نہیں تھا، اگر علماء عمائدین علاقہ اور پولیس بروقت مداخلت نہ کرتے تو شاید چارسدہ واقعے کی طرح ایک اور سانحہ ہو جاتا، جمعرات کو دوبارہ علماء کرام نے لوگوں کو اکٹھا کیا اور بتایا کہ جو بھی ہوا وہ غلط فہمی کا نتیجہ تھا۔

شیوا اڈہ سے تعلق رکھنے والے سوشل ورکر گیلانی نے کہا کہ بروز جمعرات ٹی ایم اے رزڑ کے زیراہتمام لوگوں کو دوبارہ اکٹھا کیا گیا، ختم نبوت کے مقامی عہدیداروں نے تقاریر کیں اور کہا کہ ہر کسی کو آئندہ خیال رکھنا چائیے کہ وہ جذباتی ہو کر ایسے الفاظ نہ بولے کہ وہ گستاخی کا مرتکب ہو، علماء کرام نے عوام کو تسلی دی کہ مطلوبہ شخص ایک فرض شناس اور ایماندار شخص ہے۔

سوشل ورکر گیلانی سے جب پوچھا گیا کہ ہوا کیا تھا تو انہوں نے کہا کہ ساری باتیں سنی سنائی باتیں تھیں، بازار میں لوگ یہی کہتے تھے کہ ہم نے سنا ہے کہ انہوں نے گستاخی کی ہے جبکہ ٹی ایم اے کے آفیسر بازار میں روزانہ کی بنیاد پر چھاپے مارتے ہیں، شاید کسی سے غصے میں کچھ کہا ہو لیکن اہلکار کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں جو ایسا شخص نہیں ہے کہ وہ گستاخی کرے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button