بلاگزعوام کی آواز

بیٹے کی پیدائش کے لیے کیل سر پر ٹھونک دو یہ کہاں کا انصاف ہے!

 خالدہ نیاز

دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور ہم لوگ آج بھی پتھر کے زمانے میں رہ رہے ہیں۔ اکیسویں صدی میں بھی جب ایک خاتون اولاد نرینہ کے لیے ایک پیر کے کہنے پر اپنے سر میں کیل ٹھونک دیتی ہے تو اس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہماری خواتین کتنی سمجھدار ہیں اور ان کو کتنی آسانی سے بے وقوف بنایا جا سکتا ہے۔

کل نظر سے ایک خبر گزری کہ لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں ایک خاتون مریض لائی گئی جس نے پیر کے کہنے پر سر میں کیل ٹھونک دی تھی، پڑھ کر بہت افسوس ہوا کہ دنیا سروگیسی اور جینیٹک انجینیئرنگ کی جانب بڑھ چکی ہے، جوڑے اپنی مرضی کے مطابق لڑکا لڑکی پیدا کر سکتے ہیں اور کسی اور خاتون کی مدد سے بھی اپنے بچوں کو جنم دے سکتے ہیں جبکہ ہم۔۔ ہم آج بھی وہیں کے وہیں ہیں۔ یہاں میں ہرگز سروگیسی کے حق میں بات نہیں کر رہی لیکن میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم لوگ ابھی تک کیوں ان پیروں کے چکروں میں پڑے ہیں اور اس سے نکل ہی نہیں پا رہے۔
یہاں ایک اور سماجی مسئلے پر بھی بات کرنا چاہوں گی کہ ہم اس دور جدید میں بھی بیٹی نہیں چاہتے، بھائی ہمیں کیوں بیٹی نہیں چاہیے، کیا بیٹی انسان نہیں ہوتی، کیا خاتون کے بغیر یہ دنیا مکمل ہے؟ کیا بیٹی ماں باپ کا سہارا نہیں بن سکتی؟ کیا بیٹی ایک گھر کو نہیں سنبھال سکتی؟ کیا ایک لڑکی باہر جا کر کمائی نہیں کر سکتی کہ بیٹے کی خواہش میں ہم اس کو جینے سے پہلے ہی مار دینا چاہتے ہیں۔

ایک بیٹی تو ماں باپ کا مان ہوتی ہے، بھائی کی آنکھوں کا تارا ہوتی ہے، گھر کی رونق ہوتی ہے لیکن پھر ہم کہیں نہ کہیں پہ اس کے ساتھ ناانصافی ضرور کر جاتے ہیں اور تازہ مثال اس کی یہ ہے کہ ایک ماں محض ایک بیٹے کی خاطر اپنے سر میں کیل ٹھوک دیتی ہے اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر! لیکن اس خاتون نے ایسا کیوں کیا؟ سوال تو یہ بھی ہے۔ کیونکہ اس کو معاشرے کے لوگوں نے اس بات پہ مجبور کیا ہو گا کہ وہ بیٹا پیدا کرے ورنہ یہ معاشرہ اس کو قبول نہیں کرے گا۔
اب آتے ہیں اس بات پہ کہ ہماری خواتین کیوں پیروں کے پاس جاتی ہیں اور وہاں جا کر وہ کچھ کر گزرتی ہیں جس کا ایک نارمل انسان سوچ بھی نہیں سکتا۔ میں نے تو یہاں تک سن رکھا ہے کہ بعض پیر خواتین کو مارتے پیٹتے ہیں اور کچھ تو نازیبا حرکات بھی کرتے ہیں، ان کے خلاف کارروائی کون کرے گا؟ مانا کہ ہماری خواتین پڑھی لکھی نہیں ہیں جس کی وجہ سے وہ اکثر پیروں کے بہکاوے میں آ جاتی ہیں اور نہ صرف ہزاروں روپے ان کے ہاتھ میں تھما دیتی ہیں بلکہ نام نہاد پیر ان کو جو الٹا سیدھا بولتے ہیں، کر گرزتی ہیں لیکن یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ادارے اور قانون ہونے کے باوجود ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی جاتی؟ اگر دیکھا جائے تو آج کل ایسے لوگ قریبا ہر جگہ کسی نہ کسی صورت میں موجود ہیں لیکن بہت کم لوگوں کے خلاف کاروائی ہوتی ہے۔

دو سال قبل ایسی ہی ایک خبر آئی تھی، پشاور پولیس نے ایک ایسے پیر کو گرفتار کیا تھا جو کرنٹ لگا کرجن اتارتا تھا، پولیس کا کہنا تھا کہ یہ پیر نہ صرف کرنٹ لگاتا بلکہ متاثرہ لوگوں کو تشدد کا بھی نشانہ بنانا تھا لیکن کیا صرف ایک پیر کو گرفتار کرنے سے مسئلہ حل ہوا؟ نہیں۔ ایسا نہیں ہوا۔ یہ سلسلہ رکنا نہیں چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کو اس حوالے سے آگاہی دینے کی بھی ضرورت ہے کہ وہ جعلی پیروں کے پاس جا کر اپنا وقت اور پیسے ضائع نہ کریں۔

ہم لوگ نام کے مسلمان ہیں کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ لڑکی یا لڑکا پیدا کرنا انسان کے بس میں نہیں ہے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے کہ جس کو چاہے اولاد نرینہ عطا کرے اور جس کو چاہے بیٹی جیسی رحمت سے نوازے لیکن اس بات کو سمجھنے میں شاید ہمیں صدیاں لگیں کیونکہ ہم سمجھنا ہی نہیں چاہتے۔

تو میری بہنو! بس نکل آؤ تعویذ اور پیروں کے اس چکر سے کیونکہ دنیا بہت آگے جا چکی اور ہم نے دنیا کا مقابلہ کرنا ہے۔ ہم کسی سے کم نہیں ہیں، ہماری خواتین میں بہت ٹیلنٹ ہے جو بہت آگے جا سکتی ہیں اور ہر میدان میں نام کما سکتی ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button