سلمیٰ جہانگیر
”کشمیر بنے گا پاکستان” یہ جملہ بچپن سے سنتی آ رہی ہوں۔ تب تو میں بھی بڑے جوش و خروش سے کہتی تھی کہ ہاں ایک دن کشمیر بنے گا پاکستان لیکن موجودہ حالات کو دیکھ کر ایسے لگتا ہے جیسے ہم کشمیر کے لئے دعا نہیں کر رہے بلکہ بددعا دے رہے ہیں۔
پاکستان کی موجودہ صورتحال سے کون واقف نہیں، بلکہ یہاں کا بچہ بچہ بھی جانتا ہے کہ آج کل ملکی حالات بدتر سے بدترین ہو رہے ہیں۔ اگر ہم بنیادی سہولیات کی بات کریں تو اس میں پاکستان دن بدن اونچائی سے پستی کی طرف گر رہا ہے اور ایسے مسائل روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں۔
محمد سلیم جو گزشتہ کئی برسوں سے پشاور میں رکشہ چلاتا ہے، جب ان سے پوچھا گیا کہ آج کشمیر سے یکجہتی کے اظہارکا دن ہے، اس حوالے سے آپ کے تاثرات کیا ہیں تو انہوں نے کہا "اس سے بڑی بے وقوفی کیا ہو سکتی ہے جب آپ کا اپنا ملک کشمیر سے زیادہ مشکلات کا شکار ہو اور آپ چیخ چیخ کر یہ کہیں کہ کشمیر بنے گا پاکستان.. پہلے اپنے ملک کے اندرونی معاملات درست کریں، پھر یہ بات کریں۔ سارے لوگ مہنگائی سے اس حد تک پریشان ہیں کہ ان کو یہ سمجھ نہیں آتی کہ اگر بھاگ کر جائیں تو جائیں کہاں؟’
انہوں نے کہا کہ وہ رکشہ چلا کر اپنے بچوں کا پیٹ پالتا ہے لیکن سی این جی کی کمی کا مسئلہ دن بدن بڑھتا جا رہا ہے، بجلی کا بحران، پیٹرولیم مصنوعات اور گھی آٹا کی آسمان کو چھوتی قیمتوں نے طوفان کھڑا کیا ہے اور اس سے عوام انتہائی پریشان ہیں، حکومت اس بارے میں کچھ نہیں کر رہی۔
سلیم نے بتایا کہ کشمیر کو پاکستان کا حصہ بنانا اتنا ہی مشکل ہے جتنا کہ یہاں کے عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کرنا، ”ہمارے لیے پاکستان ہی کافی ہے ہم کشمیر لے کر کیا کریں گے؟” محمد سلیم کے مطابق یہ نعرہ لگاتے ہوئے ہم کشمیر کو دعا نہیں بددعا دے رہے ہیں، "مجھے تو اپنے ملک میں رہ کر اپنی زندگی غلامی سے کم نہیں لگ رہی۔”
انہوں نے مزید کہا کہ ہم ہر سال 5 فروری کو کشمیریوں سے یکجہتی کا اظہار کرنے کے لئے یہ دن مناتےہیں۔ اس سلسلے میں سرکاری اداروں میں کشمیر کے حوالے سے پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں لیکن کیا ہم نے پاکستان میں رہتے ہوئے ان لوگوں سے یکجہتی کا اظہار کیا ہے جو کئی کئی رز تک بھوک اور فاقے برداشت کر کے زندگی گزارتے ہیں، ہماری دور کی نظر تو بہت تیز ہے لیکن قدموں میں پڑی ہوئی کوئی چیز کسی کو کیوں نظر نہیں آتی؟