تعلیمکالم

استاد محترم حافظ ثناءاللہ صاحب ہم شرمندہ ہیں!

انصار خلجی

محترم استاد جناب حافظ ثناءاللہ صاحب!! آج جبکہ آپ اس دار فانی سے رحلت کر چکے ہیں تو لوگ آپ کی بحیثیت صحافی اور استاد خدمات، عظمت، شرافت اور معیاری صحافت کے قصیدے پڑھتے تھکتے نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے آپ کی وفات پر تعزیتی آخباری بیانات بھی دیئے ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ جن اخباری تنظیموں کے رکن تھے وہ کسی اور مقصد کیلئے بلائے گئے اپنے کسی اجلاس میں آپ کی روح کے ایصال ثواب کیلئے فاتح خوانی بھی کریں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کسی صحافتی تنظیم یا ادارے کی جانب سے آپ کی یاد میں کسی تعزیتی ریفرنس کا بھی اہتمام ہو جہاں لوگ آپ کی خدمت، شرافت، عظمت، خودداری اور قابلیت کے گُن گائیں گے لیکن میرے نزدیک آپ ایک ناکام صحافی، ناکام استاد اور ناکام والد تھے۔

جہاں 1988 تک اس صوبے کے طلباء صحافت کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے لاہور اور ڈیرہ اسماعیل خان جاتے تھے تو آج بھی جاتے۔ آپ کو جامعہ پشاور میں شعبہ صحافت قائم کرنے کی کیا ضرورت تھی اور وہ بھی گورنر جنرل فضل حق کی منت سماجت کر کے پھر شعبہ صحافت کے قیام کے سلسلے میں آپ نے جو تکالیف اور مشکلات بر داشت کیں آپ کو کیا ضرورت تھی ایک بے حس قوم کے لئے اتنی مشکلات اپنے سر لینے کی؟

مجھے آج بھی یاد ہے کہ آپ کو انگلش ڈیپارٹمنٹ سے متصل دو کمرے دیئے گئے تھے جہاں آپ پڑھانے کے ساتھ ساتھ شعبہ صحافت کے دفتری اُمور نمٹانے کے لئے بھی مصروف عمل رہتے۔ مجھے وہ دن بھی یاد ہے جب ہم میں سے ہر ایک طالبلعلم یونیورسٹی کے ایڈمنسٹریشن بلاک سے ایک ایک کرسی اُٹھا کر شعبہ صحافت لایا تھا۔ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ ہماری ایک کلاس انگلش ڈیپارٹمنٹ سے متصل کمر ے میں تو دوسری کلاس شعبہ آرکیالوجی میں ہوتی تھی۔ میں وہ بھی نہیں بھولا کہ آپ کیسے لوگوں کی منت سماجت کر کے ہمیں پڑھانے کیلئے مجبور کرتے، مجھے یہ بھی یاد ہے کہ آپ کی کوئی تنخواہ نہیں تھی اور آپ نے ایک جذبے کے تحت اس صوبے کے لو گوں کو صحافت کی تعلیم دلانے کیلئے شعبہ صحافت کی بنیاد رکھی تھی۔

مجھے یہ بھی یاد ہے کہ شروع شروع میں نصاب کا خاکہ اور نصابی کتب نہ ہونے کے باوجود کس طرح اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر عملی صحافت سے روشناس کرایا۔ میں نے بحیثیت اُستاد، بحیثیت صحافی اور بحیثیت ایک انسان آپ کو بہت قریب سے دیکھا کیونکہ یونیورسٹی میں آپ نے پڑھایا، سکھایا پھر روزنامہ دی پاکستان ٹائمز میں قریباً ایک سال صحافت کی عملی تربیت بھی آپ سے حاصل کی اور پھر کچھ برسوں تک عملی صحافت سے وابستہ رہا جہاں مسلسل آپ سے ملنے کے مواقع ملتے رہے۔ مجھے یاد ہے کہ آپ کس طرح ہماری تربیت کرتے تھے، کس طرح سمجھاتے تھے، مجھے آج بھی آپ کی کہی ہوئی ایک ایک بات یاد ہے۔ آپ کہتے تھے کہ صحافی کی صرف ایک ہی ازم ہوتی ہے اور وہ ہے جرنلزم یعنی اصل صحافی ہر قسم کی سیاسی، لسانی یا گروہی وابستگی سے بالاتر ہوتا ہے، مجھے یہ بھی یاد ہے جب ہم ہفتہ وار چھٹی پر گھر جاتے تو آپ ہمیں بتاتے کہ صحافی کی چھٹی نہیں ہوتی اور اگر کہیں آتے جاتے ہوئے اگر لوگوں کا ہجوم نظر آئے تو ہمیں گاڑی سے اتر کر دیکھنا چاہیے اور کسی حادثے یا واقعہ کی صورت میں معلومات اکٹھی کر کے گھر سے خبر دیا کریں۔ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ آپ ہمیں سمجھاتے تھے کہ کسی بھی پریس کانفرنس یا بریفنگ کے بعد کھانے پینے کیلئے رکنے والے صحافیوں کی خبر تاخیر کا شکار ہو سکتی ہے لہذا خبر لے کر فوراً دفتر آنا چاہیے۔

حافظ صاحب مجھے آپ کی ایک ایک بات یاد ہے، کچھ بھی نہیں بھولا۔ مجھے آپ کے سارے قصے کہانیاں بھی یاد ہیں اور آپ کی خودداری کی داستانیں بھی یاد ہیں۔ مجھے آپ کا بتایا ہوا یہ واقعہ آج بھی یاد ہے کہ وزیراعظم کی پریس کانفرنس کے دوران جب سارے صحافی وزیراعظم کی تعظیم میں کھڑے ہوئے تھے تو آپ واحد صحافی تھے جو اپنی نشست پر بیٹھے رہے اور اس گستاخی کی پاداش میں آپ کو حوالات میں بند کر دیا گیا تھا۔ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ پاکستان ٹائمز کے ختم ہونے کے بعد آپ نے انگریزی کا اخبار فرنٹیئر سٹار نکالا اور مجھے یہ بھی یاد ہے کہ آپ نے اخبار کیسے اور کیوں نکالا؟

جب آپ حیات تھے تب بھی میں دوستوں کے ساتھ آپ کا ذکر کرتے ہوئے کہتا تھا کہ حافظ صاحب ایک شریف النفس انسان ہیں لیکن ایک کامیاب صحافی نہیں اور آج جب آپ اس دنیا میں موجود نہیں تو میں اور وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ آپ ایک شریف النفس انسان ضرور تھے لیکن آپ ایک کامیاب صحافی، کامیاب استاد اور کامیاب والد بالکل ثابت نہیں ہوئے کیونکہ اگر آپ ایک کامیاب صحافی ہوتے تو آپ جنرل فضل حق سے جرنلزم ڈیپارٹمنٹ کے قیام کی جگہ اپنے لئے کسی رہائشی پلاٹ یا پھر کاروبار کا مطالبہ کرتے۔ اگر آپ ایک کامیاب صحافی ہوتے تو آپ بھی دوسرے صحافیوں کی طرح وزیراعظم کی تعظیم میں کھڑے ہوتے اور جیل نہ جاتے۔ اگر آپ ایک کامیاب صحافی ہوتے تو آپ کے ہزاروں کی تعداد میں فارغ التحصیل شاگرد آج آپ کے اخبار کے لئے لکھتے۔ اگر آپ ایک کامیاب صحافی ہوتے تو آپ بھی دوسرے اخباری مالکان کی طرح روزانہ نہیں تو کم از کم ہفتے میں ایک بار محکمہ اطلاعات کا چکر لگاتے اور اگر ضعیف العمری کے باعث خود آنے سے لاچار ہوتے تو کم از کم اپنے بیٹوں سلمان اور نعمان کو محکمہ اطلاعات میں شعبہ اشتہارات کے افسران و عملے کے حضور حاضری لگانے کی تربیت ضرور دیتے۔ اگر آپ ایک کامیاب صحافی ہوتے تو آج آپ کے دونوں بیٹے تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بے روزگار نہ ہوتے، اگر آپ ایک کامیاب والد ہوتے تو آج آپ کے بیٹے دنیا کے ساتھ چلنے کے قابل ہوتے اور اگر آپ واقعی ایک کامیاب صحافی ہوتے تو آج آپ کا اخبار سسکیاں لے کر صرف برائے نام اخبار نہیں بلکہ ایک کامیاب اخبار ہوتا۔

استاد محترم! آپ کئی عشروں تک صحافت اور درس و تدریس سے منسلک رہے لیکن آپ کے پسماندگان آج بھی کرائے کے ایک فلیٹ میں رہائش پذیر ہیں اور یہی بحیثیت استاد، صحافی اور والد آپ کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ میں بھی آپ کے ان ہزاروں شاگردوں میں سے ایک ہوں جو آج کئی صحافتی، تدریسی، سرکاری اور غیرسرکاری اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں، آپ کے یہی شاگرد مختلف اخبارات، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ساتھ سوشل میڈیا کے لئے لکھتے رہتے ہیں لیکن ان میں سے کبھی کسی کو آپ کے اخبار کیلئے لکھنے کی توفیق نہیں ہوئی۔

آپ کے بہت سارے شاگرد ایسے عہدوں پر فائز ہیں کہ ان کے ایک اشارے سے آپ کے بے روزگار بیٹے رزق حلال کمانے کے قابل ہو سکتے تھے۔ آپ کے درجنوں شاگرد محکمہ اطلاعات میں اعلی عہدوں پر فائز ہیں اور اگر وہ چاہتے تو کم از کم آپ کے اخبار کو اتنے اشتہارات تو ضرور ملتے جس سے آپ کے گھر کا چولہا جلتا۔

میں نہیں جانتا کہ آپ کے اور شاگرد آپ کے بارے میں کیا احساسات رکھتے ہیں لیکن کم از کم میں بہت شرمندہ ہوں کہ ہم سب آپ کے شاگرد، آپ کے رفقائے کار، سیاستدان، معاشرہ اور ریاست آپ کو ایک ناکام صحافی، استاد اور ایک ناکام والد ثابت کرنے میں برابر کے شریک ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button