سیاست

یوم یکجہتی کشمیر: سینیٹر کرشنا کولہی کی صدارت، فیصل جاوید کا ٹویٹ اور صارفین کی رائے

محمد فہیم

یوم یکجہتی کشمیر کی مناسبت سے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کے چیئرمین سینیٹر فیصل جاوید کے ایک ٹویٹ پر ٹوئٹر صارفین کی رائے دو حصوں میں بٹ گئی۔

سینیٹر فیصل جاوید نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ایک ہندو سینیٹ اجلاس کی صدارت کر رہی ہیں، چیئرمین سینیٹ نے کرشنا کماری کولہی کو یہ اعزاز حاصل کرنے دعوت دی، یوم یکجہتی کشمیر کے حوالے سے یہ یہ ایک موثر پیغام ہے جو پاکستان اور ہندوستان کے درمیان فرق کو واضح کرتا ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز منعقدہ سینیٹ اجلاس کی ایک خاص بات کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کی قرارداد کی منظوری کے علاوہ چیئرمین سینیٹ کی جانب سے ایک ہندو خاتون رکن پارلیمان، سینیٹر کرشنا کماری کولہی کو اجلاس چیئر (صدارت) کرنے کی دعوت تھی۔ اس موقع پر سینیٹر کرشنا کماری کولہی نے کہا کہ بطور ہندو رکن کشمیریوں پر بھارتی بربریت کی مذمت کرتی ہوں۔

سوشل میڈیا کے صارفین کا ردعمل

سینیٹر جاوید کی اس ٹویٹ پر صارفین نے ملے جلے تاثرات کا اظہار کیا، جہاں بعض صارفین کی جانب سے اس اقدام کو سراہا گیا وہیں چند صارفین نے اس ٹویٹ پر فیصل جاوید اور ان کی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔

https://twitter.com/ItsGondal/status/1489501347619745794

ظہیر احمد گوندل نامی ایک صارف نے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے لکھا کہ پاکستان اقلیتوں کے رہنے کے لئے محفوظ ترین ملک ہے۔ تاہم اومکار ڈکشٹ نامی ایک صارف نے انہیں طنزیہ سا جواب دیا کہ جی بالکل! یہی وجہ ہے کہ تقسیم کے بعد پاکستان میں ہندوؤں کی آبادی میں کمی آئی ہے۔

مائرہ ریان نامی ایک صارف نے بھی اسے ایک شاندار قدم قرار دیتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ ہم اقلیتوں کا خیال رکھیں گے، ان کی حفاظت کریں گے، آئیے امن و احترام کا پیغام پھیلائیں۔

بعض صارفین اس کا کریڈٹ پاکستان پیپلز پارٹی کو دیتے نظر آئے۔ عمران دمرہ نامی ایک صارف نے لکھا کہ پیپلز پارٹی نے ہندو کولہی برادری کی قابل فخر شخصیت کرشنا کماری کو سینیٹ کی جنرل نشست پر کامیاب کرا کر تاریخ کا رخ موڑ دیا، آج وہی کرشنا کماری صاحبہ پاکستان کا وقار بلند کرنے کا سبب بن گئیں۔

تاہم کئی ایسے صارفین ایسے بھی تھے جو پیپلز پارٹی کو یہ کریڈٹ دینے کو تیار نہیں تھے بلکہ ان کی جانب سے اس جماعت پر اعتراضات کے ساتھ ساتھ جو بنیادی اعتراض اٹھایا گیا وہ یہی تھا کہ ہندوستان میں مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتیں اعلیٰ سرکاری عہدوں پر تعینات رہے ہیں لیکن پاکستان اس ضمن میں کوئی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔

سید شاہ جہان نامی ایک صارف نے لکھا کہ ڈئیر اگر ایسی بات ہے تو عبدالکلام ان کا مسلم سائنسدان بھی تھا اور اسے صدر بھی بنایا گیا، یہ کوئی کمپیریزن (موازنہ) کی فخریہ بات نہیں ہے۔

احمد حسن امی ایک صارف نے لکھا کہ ملی نغمیں گائیں، یکجہتی کا اظہار کریں لیکن عملی طور پر پاکستان کشمیریوں کے لئے بھی مضبوط اقدامات کرے ورنہ وہاں ظلم و بربریت جاری رہے گا اور ہم گانے گاتے رہیں گے اور بس!

https://twitter.com/saataarkar/status/1489556667377221632

تاہم بعض صارفین کی جانب سے اقلیتوں سے متعلق کچھ سنجیدہ سوالات بھی اٹھائے گئے۔ وائس آف پاکستان مائنارٹی نامی ایک صارف نے لکھا کہ چند روز قبل ہم نے ایک واقعہ شیئر کیا کہ دو کم سن لڑکیاں بدین سے اغوا کی گئی ہیں، ہم نے حکام سے اپیل کی کہ ان دو بچیوں کو بازیاب کرایا جائے اس سے قبل کہ بہت دیر ہو جائے، اب ان دونوں کو زبردستی مسلمان بنایا گیا ہے۔

https://twitter.com/AdvSKBheel/status/1489817900886241284

اسی طرح ایڈوکیٹ سروان کمار بھیل نامی ایک صارف نے لکھا کہ ہمیں صرف فوٹو سیشن نہیں بلکہ برابر حقوق چاہئیں، اقلییں وفاقی و صابائی حکومتوں سے اپنے حقوق کا مطالبہ کرتی ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button