”بڑے بھائی کے ساتھ سکول جاتے جاتے نشے کی لت میں مبتلا ہو گیا”
لائبہ حسن
پاکستان میں منشیات استعمال کرنے والے افراد کی تعداد دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے جس میں بڑی تعداد میں بچے بھی شامل ہیں۔ سال 2013 میں اقوام متحدہ کی ایک سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تقریباً 67 لاکھ لوگ منشیات کا استعمال کر رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق 15 سال سے لے کر 64 سال عمر کے افراد ڈاکٹر کی تجویز کے بغیر نشہ آور ادویات میڈیکل سٹورز سے خریدتے ہیں، 67 لاکھ لوگوں میں 40 لاکھ وہ لوگ ہیں جن کو نشے کی لت پڑی ہوئی ہے جو کسی ملک کیلئے سب سے بڑی تعداد ہے۔
اقوام متحدہ منشیات اور جرائم کی روک تھام کے ادارے کے مطابق پاکستان میں آٹھ لاکھ افراد میں 15 سے 64 سال کی عمر تک کے لوگ ہیروئن کا باقاعدگی سے استعمال کرتے ہیں جن میں تقریباً 78 فیصد مرد اور 22 فیصد خواتین شامل ہیں جس کی وجہ سے پاکستان میں ہر سال 44 ٹن ہیروئن استعمال ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ پڑوسی ملک افغانستان سے مزید 110 ٹن ہیروئن اور مارفین پاکستان کے راستے بین الاقوامی منڈیوں میں سمگل کی جاتی ہیں اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں منشیات کی غیرقانونی تجارت سالانہ 2 بلین ڈالر تک ہوتی ہے۔
منشیات (بھنگ) استعمال کرنے والوں کی تعداد خیبر پختونخواہ میں سب سے زیادہ ہے جو کہ افغانستان کے سب سے زیادہ قریب ہے اور جہاں تقریباً 11 فیصد آبادی منشیات (بنیادی طور پر بھنگ) میں جکڑی ہوئی ہے۔
نشے کی لت میں مبتلا دو بچوں کی کہانی
سوات میں منشیات کے عادی افراد کے بحالی مرکز میں موجود بارہ سالہ آصف کے مطابق وہ سکول جاتے وقت اپنے بڑے بھائی کے ساتھ منشیات کی طرف آیا اور اپنے بھائی سمیت حشیش (چرس) کا نشہ شروع کیا۔ آصف کا کہنا تھا کہ وہ اور اس کا بھائی سکول کا جیب خرچ جمع کر کے حشیش (چرس) خریدتے، اس کا کہنا تھا کے بری صحبت میں بیٹھنے کی وجہ سے وہ اس راہ پر چلنے لگا لیکن جب والد اور والدہ کو پتا چلا تو انہوں نے ڈانٹا لیکن آخر میں انہوں نے مجبور ہو کر انہیں اس مرکز میں اپنے بھائی سمیت داخل کرا دیا جہاں ان کا مفت علاج ہو رہا ہے۔
آصف کے مطابق اب وہ اپنا ایک روشن مستقبل دیکھتے ہیں اور دونوں بھائی باقاعدگی سے نماز اور قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہیں ساتھ میں سکول کا کام اور مرکز میں موجود اور بچوں اور لڑکوں کے ساتھ مختلف قسم کے کھیل کھیلتے ہیں اور ایک خوشحال زندگی بسر کر رہے ہیں۔
اسی مرکز میں موجود 14 سالہ اسد جس کا تعلق لاہور سے ہے، ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی دوستی ان کی عمر سے بڑے لڑکوں کے ساتھ تھی جو مختلف قسم کی منشیات کا استعمال کرتے جن میں آئس اور حشیش کا نشہ شامل تھا، لیکن وہ صرف حشیش کے عادی ہوئے اور آخر میں ان کے پڑے ماموں نے ان کو رنگے ہاتھوں پکڑا اور سوات کے اس مرکز میں داخل کر دیا جس کے بعد ان کا علاج اب تک جاری ہے اور وہ دھیرے دھیرے بہتر ہوتے جا رہے ہیں۔
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں ایڈوکیٹ کامران الاسلام نے بتایا کہ ہر وہ بچہ جس کی عمر اٹھارہ سال سے کم ہو وہ جووینائل جسٹس سسٹم ایکٹ 2018 کے زمرے میں آئے گا، اگر کوئی بھی بچہ کسی بھی قسم کی سمگلنگ میں پکڑا جائے تو سب سے پہلے پولیس پیدائش سرٹیفیکیٹ سے یہ معلوم کرتی ہے کہ آیا یہ بچہ جووینائل کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں؟ اگر بچے کی پیدائش کے کاغذات موجود نا ہوں تو پھر اس صورت میں میڈیکل ٹیم کے ذریعے بچے کی اصل عمر معلوم کی جاتی ہے لیکن بچے کو کسی قسم کی جیل میں نہیں رکھا جاتا، جووینائل معلوم ہونے کے بعد دو طریقو ں سے اس مسئلے کو حل کیا جاتا ہے: ایک یہ کہ جووینائل کمیٹی جس کیلئے قانون میں (ڈائیورژن) کا لفظ استعمال ہوا ہے جو کہ ایک ثالثی کمیٹی ہے یہ کمیٹی اس معاملے کو ایک مہینے میں حل کرتی ہے، دوسرے جووینائل عدالت میں ٹرائل کے ذریعے اس معاملے کو حل کیا جاتا ہے، اس مدت تک بچے کو اسپیشل جیل میں رکھا جاتا ہے جو کہ ایک اسکول کی شکل میں ہوتی ہے جہاں بچے کی ذہنی تربیت کی جاتی ہے۔”
انہوں نے بتایا کہ عدالتی کارروائی میں ایک جووینائل کو بیل (ضمانت) مل بھی سکتی ہے اور نہیں بھی لیکن بیل اس صورت میں نہیں مل سکتی اگر بچے سے دوبارہ کسی سنگین جرم کی توقع ہو، جووینائل ٹرائل کے دوران عدالت میں کسی بھی غیرضروری فرد کی موجودگی کی اجازت نہیں ہوتی، ٹرائل کے بعد اگر بچے پر فرد جرم ثابت ہو یا عائد ہو تو ٹھیک بصورت دیگر بچے کی مزید تربیت کی جائے گی اور اس سے کام لیا جائے گا مثلاً کسی پارک میں ٹکٹ فروخت کرنا وغیرہ۔