گرو اور چیلہ: کیا ان کا رشتہ باقی رشتوں سے جدا ہوتا ہے؟
عائشہ یوسفزئی
دنیا میں پیدا ہوتے ہی انسان کی زندگی خوبصورت رشتوں سے جڑ جاتی ہے اور پھر چیزیں حیثیت نہیں رکھتی، انسان بھی نہیں رکھتے، اگر کچھ اہم ہوتا ہے تو وہ یہی رشتے ہیں جن میں ماں باپ، بہن بھائی، پیر مرید، حاکم محکوم وغیرہ جیسے رشتے شمل ہیں جو کہ انسان کو محبت، اطاعت اور عقیدت کے جذبے سے سرشار رکھتے ہیں۔
انہی رشتوں میں سے ایک رشتہ ایسا بھی ہے کہ جس کا قصہ معلوم نہیں ہے۔ یہ رشتہ خواجہ سراؤں کے گرو اور چیلے کے درمیان ہوتا ہے۔ آیا اس رشتے میں بھی پیار سے پیش آنا، ایک دوسرے سے محبت کرنا، قدر او عزت کی نگاہ سے دیکھنا، باہمی تعاون اور آپس میں مل بیٹھ کر زندگی گزارنا جیسی باتیں پائی جاتی ہیں یا نہیں، کیا ان کا رشتہ باقی رشتوں سے جدا ہوتا ہے یا نہیں؟
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں خیبر پختونخوا میں خواجہ سراؤں کے گرو نینا خان نے بتایا کہ اکثر لوگ ہم سے پوچھتے ہیں کہ ایسے لوگ جن میں خواجہ سراؤں والی عادتیں پائی جاتی ہوں، تو وہ کس طرح سے آپ تک رسائی حاصل کریں جس کے جواب میں نینا کہتی ہیں کہ اس طرح کے لوگ ہمیں بازاروں اور راستوں میں مل جاتے ہیں اور پھر ہم ان کو اپنے ماحول کا حصہ بنا لیتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں نینا خان نے کہا کہ ایسا انسان جو کہ خواجہ سرا ہوتا ہے تو اس کو اپنی کمیونٹی میں شامل کرنے کے لئے بحیثیت گرو ہم ایک رسم کا اہتمام کرتے ہیں کہ جس میں گرو نئے خواجہ سرا کو اپنا چیلا بنانے کے لئے پہلے اس کے سر پر دوپٹہ رکھتا ہے پھر اس کی ناک کو چھیدا جاتا ہے جبکہ گرو کے ساتھ موجود باقی خواجہ سرا نئے چیلے کو مبارکباد دینے کے ساتھ ساتھ چوڑیاں خریدنے کے پیسے بھی خوشی کے طور پر دیتے ہیں۔ رسم میں گرو نئے چیلے سے پوچھتا ہے کہ تم بغیر کسی زور زبردستی کے میرا چیلا بننا چاہتے ہو تو جواب میں چیلا ہاں میں جواب دیتا ہے جس کے بعد گرو سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو پیغام جاری کرتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ نئے چیلے کا نام لڑکیوں والا رکھ دیا گیا ہے اور اگر کسی کو بھی اس سے کوئی کام ہو تو پہلے مجھ سے رابطہ کریں۔
اسی طرح خواجہ سراؤن کے ایک اور گرو نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ اگر ہمارے چیلوں میں سے کوئی خواجہ سرا اپنے گرو سے ناراض ہو جائے یا پھر دونوں میں کوئی مسئلہ ہو جائے تو اس صورت میں خواجہ سرا اپنے گرو کو چھوڑ کر دوسرے گرو کا چیلا بن جاتا ہے تو پھر پہلے والا گرو دوسرے گرو سے رابطہ کر کے وہ سارا سامان واپس لے لیتا ہے جو رسم کے دوران اس کو دیا ہوتا ہے لیکن ایک بات یہ بھی ہے کہ وہ خواجہ سرا جو کہ ناراض ہو کر چلا گیا ہوتا ہے اگر دوبارہ سے اپنے پہلے والے گرو کے پاس واپس آنا چاہے تو اس سے ”گناہنگارہ” لیا جاتا ہے، ”گناہنگارے” کا مطلب دو ہزار روپے تک کا جرمانہ وصول کر لیا جاتا ہے۔
پارو نامی خواجہ سراؤں کے ایک اور گرو نے بتایا کہ ایک اچھے گرو کی چند ایک خصوصیات ہیں، جب کسی خواجہ سرا میں یہ خوبیاں موجود ہوتی ہیں تو وہ باآسانی خواجہ سراؤں کا گرو بن جاتا ہے کیونکہ خواجہ سراؤں کو ہر طرف سے خطرات لاحق ہوتے ہیں، اگر سر چھپانے کے لئے مکان لینا ہو تو مالک مکان کے مسئلے، اگر فنکشن میں جائیں تو وہاں مسئلے یا پھر پولیس والوں کے ساتھ تھانے کچہری کے مسائل سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایک نیا ٹرانس ایسے گرو کے پاس جاتا ہے جو اس کو ماں باپ جیسا پیار دیتا ہو، اس کا خیال رکھتا ہو اور پھر ایک گرو کی حیثیت سے اس کے لئے لڑتا بھی ہو، اس کے لئے رقص کی محفلوں کا بندوبست بھی کرتا ہو، اگر یہ ساری خوبیاں اس میں ہوں تو بھر وہ ایک اچھا گورو ثابت ہوتا ہے۔
ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں مقامی خواجہ سراؤں کا کہنا تھا کہ اکثراوقات ہمارے گھر والے گرو سے رابطہ کرتے ہیں اور یا پھر ہماری جگہوں پر آ کر ہم پر تشدد کرتے ہیں اور ہمیں گالیاں بھی دیتے ہیں مگر ہمارا گرو ایک باپ کی طرح ان کے سامنے ڈٹ جاتا ہے جس کے لئے وہ قانونی راستے بھی اختیار کرتا ہے۔
انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ہمارے لئے بنائے گئے قانون پر عملدرآمد کروانے کے لئے عملی اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ ہم بھی خود کو اس معاشرے میں محفوظ سمجھ سکیں۔