سیاستکالم

اگر مجھے اقتدار سے نکالا گیا

انصار یوسفزئی

سب سے پہلے تو ہمیں سمجھنا چاہئے کہ اقتدار کا مطلب کیا ہے؟ اقتدار کا سادہ الفاظ میں مطلب ہے طاقت اور اختیار، لیکن اقتدار کو عام زبان میں لوگ ایک نشہ بھی سمجھتے ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم صاحب نے جب قوم سے خطاب کرتے ہوئے یہ کہا کہ "اگر مجھے اقتدار سے نکالا گیا تو میں زیادہ خطرناک ہوں گا” اس میں تو ایک طرف ان ڈائریکٹ پیغام ہے ان قوتوں کیلئے جو اب عمران خان کے ساتھ آخری کھیل کھیلنے والے ہیں مگر دوسری طرف اس سے یہ بھی منکشف ہو رہا ہے کہ عمران خان کو اقتدار کا نشہ بھی چڑھ گیا ہے جو اب آسانی سے اترنے والا نہیں- آپ یقین کیجئے عمران خان کیا، کسی بھی انسان کو جب یہ نشہ لگ جاتا ہے تو پھر ساری زندگی یہ نشہ انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتا۔ طاقت جب ایک انسان کو اقتدار کی وجہ یا کسی اچھی پوسٹ کی وجہ سے ملتی ہے تو وہ اس کا ہر اچھے اور برے کام کرنے میں استعمال کرتا ہے، لیکن یہ سب چیزیں عارضی ہوتی ہیں۔

عمران خان کو یہ سمجھنا ہو گا جو بھی اقتدار میں آتا ہے اس کو ایک دن لازمی واپس جانا ہوتا ہے، کیوں کہ جو سورج صبح کو طلوع ہوتا ہے وہ لازماً شام کو غروب بھی ہوتا ہے اور جو چاند رات کو نکلتا ہے وہ صبح سے پہلے غروب ہوتا ہے۔ یہ قدرت کا نظام ہے ج برسوں سے چلا آ رہا ہے۔ ہمارے وزیر اعظم صاحب کبھی ماضی کے جھروکوں میں جھانک کر دیکھ لیں کہ اقتدار ہمیشہ کسی کا نہیں رہا، جو اقتدار میں آیا وہ ایک خاص وقت کے بعد اقتدار سے چلا گیا۔ مگر ان میں سے کچھ حکمران ایسے بھی ہیں اپنے اچھے کاموں کی وجہ سے جن کے نام ہمیشہ کیلئے زندہ ہیں لیکن ہمیشہ کیلئے اقتدار ان کے پاس بھی نہیں رہا-

لوگ ہمیشہ وہی تاریخ میں امر ہو جاتے ہیں جو اقتدار میں آنے کے بعد اپنے ملک اور اپنی قوم کی ترقی کے لئے تگ و دو کرتے ہیں- دوسری طرف وہ لوگ ہمیشہ کے لئے تاریخ کا سیاه باب بن جاتے ہیں جو اقتدار کو اپنی ذات کے لئے استعمال کرتے ہیں، اپنے خاندان کو ترقی دینے کیلئے استعمال کرتے ہیں، جس جس حکمران نے اپنے ملک اور قوم کے بارے میں کچھ نہیں سوچا تاریخ نے بھی اس کے بارے میں کبھی نہیں سوچا۔ آج بحیثیت قوم ہم سب کیلے ماتم یہ ہے کہ آج ہمارے مقتدر ملک اور قوم کی بجائے اپنی ذات میں مگن ہیں اور اقتدار سے نکلنے کا وقت قریب آنے پر "اگر مجھے نکالا گیا تو— ”  کی دھمکی دیتے ہیں جیسے اقتدار ان کے گھر کی لونڈی ہو۔

وزیر اعظم عمران خان کی اس مذکورہ دھمکی سے ایک شخصیت کا واقعہ یہاں لکھنا بڑا ضروری سمجھتا ہوں- کچھ دن پہلے مجھے ایک بادشاہ کی ملکہ کے خیالات پڑھنے کا شرف حاصل ہوا۔ یہ ملکہ فرح دیبا تھیں جو ایران کے سابق "شاہ” کی بیوی ہیں۔ یہ کسی امریکن صحافی کو انٹرویو دے رہی تھیں، یہ کوئی بہت ہی پرانا انٹرویو ہے جس میں وہ کہتی ہیں ”میں جس محل میں رہتی تھی اس میں میرے 60 کے قریب ملازم تھے، میرا ذاتی سٹاف تھا، میرے اردگرد کے سب لوگ میرے اشاروں پر چلتے تھے، ان میں جرات نہیں تھی کے میرے حکم کا انکار کرتے، میں جو حکم دیتی تھی کسی کی مجال کہ اس کی تعمیل نا کرتا۔ یہ باتیں کرتے وہ رونے لگیں اور کہنے لگیں اب میرے پاس صرف دو ملازم ہیں، ایک عورت میرے لئے کھانا بناتی ہے اور ایک میرا ڈرائیور ہے، میں اب بہت مشکل، کسمپرسی، لاچارگی اور غربت والی زندگی گزار رہی ہوں۔ کبھی کبھی پیسے لوگوں سے ادھار بھی لینے پڑتے ہیں۔”

یہ دونوں میاں بیوی 1979ء میں ایرانی انقلاب کے وقت ملک سے فرار ہو گئے، یہ مختلف ملکوں کی چوکھٹ پر دستک دیتے، ان کو کوئی ملک بھی پناہ دینے کو تیار نہیں تھا۔ سوئس بینکوں میں ان کا پیسہ ضبط کر لیا گیا، امریکہ نے بھی ان کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ان حالات میں وہ قاهرہ پہنچ گئے۔ اسی کسمپرسی میں شاہ کا وہیں انتقال ہوا۔ جس گھر میں وہ رہتے تھے وہیں ان کو دفن کر دیا گیا۔ شاہ کی وفات کے بعد فرح آزاد ہو کر امریکہ چلی گئیں۔ اس وقت تک حالات نارمل ہو چکے تھے، اس کے بعد امریکہ میں جلاوطنی کی زندگی گزارنا شروع کر دی، یہ ایسے ملک کے بادشاہ کی بیوی تھی جو تیل کے ذخائرہ سے مالا مال تھا، جس کے خاوند کے اشاروں پر پورا ملک چلتا تھا۔ ایک دفعہ شاہ نے ایران میں شہنشاہت کا اڑھائی ہزار سالہ جشن منانے کا فیصلہ کیا، شاہ کو بتایا گیا کہ ابھی ایران میں شہنشاہت کو اتنے سال نہیں ہوئے۔ شاہ نے حکم دیا کلینڈر کو آگے کر دیا جائے حقیقت میں کلینڈر آگے کر دیا گیا تھا۔ شاہ نے ایک دفعہ اپنے وزیر سے پوچھا ٹائم کیا ہوا ہے؟ اس نے بتایا کے 6 بجے ہیں- شاہ صاحب کی اپنی گھڑی پر 5 بج رہے تھے، جب اپنی گھڑی میں ٹائم ٹھیک کرنا چاہا تو وزیر نے کہا ہم سب لوگ اپنا ٹائم ایک گھنٹہ پیچھے کر لیتے ہیں آپ تکلیف مت کیجئے- اس کے علاوہ ان کے ایک آرڈر پر 44 ہزار امریکیوں کو سفارتکاروں کا درجہ ملا۔ اس نے حکم دیا اور ایران میں داڑھی رکھنے پر پابندی لگ گئی۔

یہ ایک بادشاہ کی بادشاہت تھی جب وہ اپنی قوم پر مسلط تھا۔ اقتدار کے نشے میں وہ اتنا مگن تھا کہ جو بھی چاہتا تھا کر گزرتا تھا کیوں کہ کسی میں اتنی جرات نہیں تھی کہ اس سے کوئی سوال پوچھ سکتا۔ لیکن آخرکار 71 سال کی عمر میں قاهرہ کے ایک گھر میں انتقال کر گیا- ستم ظریفی دیکھیں کوئی ڈاکٹر بھی آخری وقت میں ان کے علاج کے لئے میسر نہیں تھا۔ کاش شاہ کو کوئی بتانے والا ہوتا کہ اقتدار ہمیشہ نہیں رہتا، ہمیشہ آپ کے اچھے کام بس لوگوں کے دل اور دماغ میں رہتے ہیں۔ اس دنیا میں اس شاہ اور ملکہ جیسے پتہ نہیں کتنے لوگ گزر چکے ہیں جو اپنے اقتدار اور اختیارات پر بہت زیادہ مان کرتے تھے، جو سورج اور ہوا کو ٹھہر جانے کا حکم دیتے تھے پھر ایسے لوگوں کو اپنے ملک میں دفن ہونا بھی نصیب نہیں ہوا۔ جس پر آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر نے بھی کہا تھا

کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کیلئے

دو گز زمیں بھی نا ملی کوئے یار میں

عمران خان کو سمجھنا چاہئے کہ اس شاہ کو اپنی شہنشایت پر اتنا ہی غرور اور گھمنڈ تھا جتنا آپ کو اپنے وزیر اعظم ہونے پر ہے مگر آخر میں کیا ہوا؟ لہٰذا عمران خان کو سوچنا ہو گا آج نکلیں، کل نکلیں یا پرسوں نکلیں لیکن لوگ آپ کی دھمکی کو نہیں بلکہ آپ کے کام کو دیکھیں گے جو فی الحال تین سالوں میں کہیں نظر نہیں آیا اور ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی تازہ ترین رپورٹ نے آپ کے "اچھے” کاموں پر مہر تصدیق ثبت کی ہے لہٰذا ڈرانے دھمکانے سے پہلے کارکردگی دکھائیے، عوام کو ریلیف دینے کیلئے کوئی مربوط حکمت عملی اختیار کریں ورنہ جو اقتدار شاہ ایران کا نہ بن سکا وہ آپ کا بھی نہیں بنے گا۔ ہمیشہ ملک اور قوم کی ترقی کو اپنا فریضہ سمجھو۔ اگر آپ نے اپنا فرض اچھے طریقے سے سر انجام دیا تو یہ قوم آپ کو ہمیشہ یاد رکھے گی، اس قوم کے باسیوں میں اتنی سمجھ بوجھ ہے کہ یہ آپ کو سر آنکھوں پر بٹھائیں ورنہ آپ کا حشر شاہ ایران سے مختلف نہیں ہو گا، آپ کو اس سر زمین پردفن ہونے کیلئے دو گز زمین بھی میسر نہیں ہو گی اور لوگ آپ کو ہمیشہ ہمیشہ کیلے بھول جائیں گے، اگر یاد بھی کریں گے تو برے القابات سے آپ کو پکاریں گے اور تب تک شائد آپ کی یہ دھمکی کہ "اگر مجھے اقتدار سے نکالا گیا تو میں زیادہ خطرناک ہوں گا” اپنا اثر کھو چکی ہو گی کیوں کہ شائد تب آپ کے اردگرد عوام تو کیا مراد سعید جیسے انصافی بھی کھڑے ہونے کیلئے تیار نہیں ہوں گے۔

انصار یوسفزئی اسلام آباد میں مقیم صحافی ہیں۔ وہ اس وقت بطور نمائندہ ایشیا فری پریس (اے ایف پی) سے وابستہ ہیں۔ یوسفزئی روزنامہ آئین پشاور، روزنامہ شہباز پشاور اور ڈیورنڈ ٹائمز کے ساتھ بطور کالم نگار منسلک رہ چکے ہیں۔ انہوں نے ایڈورڈز کالج پشاور اور نمل اسلام آباد سے صحافت کی تعلیم حاصل کی ہے.
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button