کرونا وبا کی وجہ سے خیبرپختونخوا کا کاروباری طبقہ بھی معاشی مشکلات کا شکار
خیبرپختونخوا میں کاروبار سے جڑے افراد کا کہنا ہے کہ ایک طرف حکومت کی معاشی پالیسیوں نے کاروبار کو متاثر کیا جبکہ رہی سہی کسر کورونا وائرس نے پوری کردی جس سے کئی کاروباری افراد اپنے کاروبار کو خیرباد کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
خیبرپختونخوا میں نہ صرف مرد بلکہ خواتین بھی اپنے گھروں میں کسی نہ کسی کاروبار سے جڑی ہوئی ہیں جن کے کاروبار بھی کرونا وائرس کی وجہ سے متاثر ہوئے ہیں۔
سویرا مختیار اپنے گھر میں کپڑے کا کاروبار چلاتی ہے کہتی ہے کہ انکے والد کپڑوں کا کاروبار کرتے تھے مگر نامعلوم وجوہات کی بناء پر معاشی طور پر انکے حالات خراب ہونے لگے جس کی وجہ سے انکے والد نے کاروبار کو مزید وسعت دینے کیلئے انکی والدہ کیلئے گھر پر بھی کاروبار شروع کیا۔
کہتی ہے کہ اس دوران انکی ماں کورونا وائرس سے وفات پا گئی لیکن کاروبار کو میری بڑی بہن نے جاری رکھا۔ اسی کے ساتھ لاک ڈاؤن نے مزید انکے کاروبا کو دھچکا لگایا مگر رمضان میں خواتین نے گھروں میں سودا خریدنے کیلئے رُخ کیا۔ سویرا کہتی ہے کہ کورونا کی وجہ سے ملک کی معاشی صورتحال خراب ہونے کے بعد مہنگائی بڑھنے لگی اور زیادہ تر خواتین ہم سے ادھار کپڑے خریدتی تھی جس سے ہمارا پیسہ ڈوبنے لگا اور ہمارے اوپر 25 لاکھ روپے کا قرضہ چڑھا۔
سویرا کہتی ہے کہ اس دوران وہ دیوالیہ ہوگئی اور انہوں نے اپنا کاروبار ختم کردیا مگر آج وہ دوبارہ اسی جگہ پر کھڑی ہے جہاں سے انکے والد نے گھر سے کاروبار شروع کیا تھا۔
خیبرپختونخوا کے بیشتر تاجروں کے کاروبار کا انحصار ہمسایہ ملک افغانستان پر ہے لیکن کورونا کے بعد افغانستان کے بارڈر بند ہونے اور افغانستان پر طالبان کے قبضے سے بھی کاروبار متاثر ہوئے۔
انورزیب افریدی کا پشاور کارخانو مارکیٹ میں جوتوں کا کاروبار ہے وہ بھی کاروبار متاثر ہونے کی شکایت کرتا ہے، ان کا کہنا ہے کہ کورونا وبا کے بعد انکای کاروبار سخت متاثر ہوا ہے اور اسکی وجہ یہ ہے کہ انکے کاروبار کا زیادہ انحصار افغانستان پر ہے لیکن جب بارڈر پر سپلائی بند ہوئی تو اس سے کاروبار رُک گیا اور معاشی طور پر وہ سخت متاثر ہونے لگے۔
انہوں نے کہا کہ پہلے تقریباً تین ساڑھے تین ارب روپے کا کاروبار ہوتا تھا لیکن اب پچاس ساٹھ کروڑ روپے تک پہنچا لیکن وہ آج بھی کورونا سے خوف زدہ ہے کہ ایسا نہ ہو کہ دوبارہ لاک ڈاون لگ جائے۔
انہوں نے کہا کہ دن بدن مہنگائی کی وجہ سے اخراجات بڑھتے ہیں مگر انکی آمدن کم ہوچکی ہے کیونکہ ٹرانسپورٹ رُک گئی، پیسہ کم ہوگیا ہمارے اوپر دوکانوں کے کرائے چڑھ گئے جس کی وجہ سے ہمارے حالات نہایت متاثر ہوئے ہیں۔
خیبرپختونخوا میں کاروباری افراد کا کہنا ہے کہ کورونا کی خطرناک لہروں کے بعد انکے کاروبار کی دوبارہ بحالی کیلئے حکومت نے ازالے کے طور پر کوئی امداد نہیں کی۔
کے پی چیمبر کے سابق صدر شیرباز بلور کہتے ہیں کہ کورونا وبا کے دوران اوپر سے لیکر نیچے تک ہر قسم کے کاروبار متاثر ہوئے ہیں۔ کورونا کی پہلی، دوسری اور تیسری لہر کے دوران اندازہ نہیں ہو رہا تھا کہ کاروبار کتنا متاثر ہوا لیکن جب چوتھا لہر شروع ہوا اور لاک ڈاؤن لگ گیا تو اسکا اثر یہ ہوا کہ ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری کی شرح بڑھ گئی جس سے کاروبار پر خرچ ہونے والی رقم کی قیمت زیادہ ہوئی اور عام لوگوں کی زندگی براہ راست متاثر ہوئی۔
شیرباز کا کہنا ہے کہ حالیہ دنوں میں حکومت پاکستان نے منی بجٹ بل پاس کیا جس سے انٹرنیشنل مانیٹرنگ فنڈ کی جانب سے نئے شرائط مان لئے گئے اور ڈالر کی قیمت مزید اوپر بڑھنے لگا اور روپے کی کمی کی وجہ سے کاروبار متاثر ہونے لگا۔
انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں کاروباری افراد کیلئے حکومت کی ناقص پالیسیاں دن بدن مشکلات پیدا کررہی ہے ہر ہفتہ معاشی پالیسیاں تبدیل ہوتی جا رہی ہے، ٹیکسز بڑھتے جا رہے ہیں اگر یہ پالیسیاں مسلسل جاری رہی تو پہلے ہی سے متاثرہ کاروبار ٹھپ ہو کر رہ جائے گا۔
شیرباز نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ کاروباری پالیسیاں مرتب کرنے میں کاروباری افراد کے ساتھ مشاورت ہونی چاہئے تاکہ ایسی حکمت عملی وضع کی جائے جس سے زیادہ لوگ کاروبار کی طرف آئیں اور ٹیکس جمع ہونے میں آسانی پیدا ہوجائے۔
اس سٹوری کے لیے جینا، ماہنور خلیل اور مہراب افریدی نے معلومات فراہم کی ہے۔