تھانہ متنی میں اپنی نوعیت کا پہلا مقدمہ، پالتو کتا مارنے پر ملزمان کے خلاف مقدمہ درج
سلمان یوسفزے
پشاور کے نواحی علاقہ تھانہ متنی کی حدود میں 2 افراد نے نامعلوم وجوہات کی بنا پر پالتو کتے کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔
پولیس کے مطابق یہ واقعہ متنی بازید خیل میں اس وقت پیش آیا جب شاہ رحمان ولد سیف الرحمان نامی شخص اپنے کتے کے ساتھ کھیتوں میں کھیل رہا تھا کہ اس دوران ملزمان شعیب اور طاہر نے پستول سے فائرنگ کر کے کتے کو مار ڈالا۔
شاہ الرحمان کے مطابق میری کسی سے دشمنی نہیں ہے جبکہ ملزمان نے موج مستی کی خاطر اسلحہ کا استعمال کرتے ہوئے میرے کتے کی جان لے لی۔
تھانہ متنی میں درج رپورٹ کے مطابق واقعہ تین روز قبل پیش آیا ہے جبکہ ملزمان درہ آدم خیل کے رہائشی ہونے کے باعث جائے وقوعہ سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے ہیں تاہم ملزمان کی گرفتاری کے لئے پولیس کی کوشیش جاری ہیں۔
پولیس نے بتایا ہلاکت کے بعد کتے کو پوسٹ مارٹم کے لئے وٹرنری ہسپتال بھجوا دیا گیا جہاں سے پوسٹ مارٹم رپورٹ آنے کے بعد کیس میں دیگر دفعات شامل کی جائیں گے۔
"انسان یو یا جانور قانون سب کے لئے برابر ہے”
ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں پشاور ہائی کورٹ کے سنئیر وکیل عباس سنگین ایڈوکیٹ نے بتایا کہ جانور ہوں یا پرندے ان کو مارنا غیرقانونی عمل ہے جس کے لئے پی پی سی 429 کے تحت تین سے پانچ سال قید اور جرمانے کی سزا قانون میں موجود ہے۔
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے بات چیت میں پشاور ہائی کورٹ کے دوسرے سینئر وکیل علی گوہر ایڈوکیٹ نے بتایا کہ اگر کسی پالتو جانور مثلاً گھوڑا، اونٹ، کتے وغیرہ جس کی قیمت پچاس روپے سے زیادہ ہو تو اسے جان بوجھ کر مار دینا، زہر دینا یا زندگی بھر کے لئے مفلوج کر دینے پر قانون میں پانچ سال کی قید اور جرمانے کی سزا ہے جبکہ اگر کسی جانور کی قیمت دس روپے سے زیادہ ہے تو پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 428 کے مطابق اس کی سزا دو سال قید اور جرمانہ ہے۔
علی گوہر ایڈوکیٹ نے بتایا کہ پاکستان میں بہت کم لوگوں کو جانوروں اور پرندوں کو مارنے کے حوالے سے قوانین کا پتہ ہے، یورپ میں کئی کئی سالوں تک جانوروں کو مارنے پر قید کاٹی جاتی ہے جبکہ بھاری جرمانے بھی ہوتے ہیں۔