لائف سٹائل

پشاور کے تاجروں کو افغان روایتی لباس کے سب سے زیادہ آرڈرز کہاں سے آتے ہیں؟

فہیم آفریدی

زمانہ قدیم سے انسان لباس کو بنیادی طور پر اپنی سترپوشی اور موسم کی شدت سے اپنی حفاظت کے لئے استعمال کرتا آ رہا ہے تاہم وقت کے ساتھ ساتھ خوبصورتی کے علاوہ یہ برتری یا کم تری کی علامت بھی بن گیا۔ آج اس جدید دور میں لباس فیشن ک صورت اختیار کر گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ جہاں اس میں نت نئے ڈیزائن سامنے آ رہے ہیں وہاں مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی ایک دوسرے کا لباس یا پہناؤں کو اپنا رہے ہیں۔

اس ضمن میں افغانوں کے روایتی لباس خصوصاً افغان خواتین کے پہناؤں کی مثال بھی دی جا سکتی ہے جو نا صرف پاکستان کے افغانستان سے متصل صوبے خیبر پختونخوا میں بلکہ سندھ و پنجاب کے ساتھ ساتھ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی مشہور یا پھر مقبولیت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔

افغانستان میں بھی ملبوسات کے حوالے سے تنوع یا ورائٹی پائی جاتی ہے لیکن وہاں چونکہ اکثریت پشتونوں کی ہے لہٰذا ان کے لباس کو ہی افغان پوشاک کہا جاتا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ افغان خواتین کے ایک جوڑا لباس، خصوصاً قمیض کی قیمت پانچ دس ہزار سے لے کر لاکھوں روپے تک پہنچ سکتی ہے کیونکہ اس پر طرح طرح کی نقش نگاری، کڑھائی، گلکاری یہاں تک طلائی/سونے کا کام بھی کیا جاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ افغان خواتین کے روایتی ملبوسات کی تیاری جہاں ایک پیچیدہ عمل ہے وہاں یہ ایک اچھا خاصا منافع بخش کاروبار بھی ہے جس سے اندرون افغانستان کے علاوہ پشاور کے بھی کئی افراد وابستہ ہیں۔

دو ڈھائی سال قبل مگر جب کورونا آیا تو اس نے جہاں دیگر شعبہ جات ہائے زندگی کو متاثر کیا وہاں کپڑے باالخصوص افغانوں کے روایتی لباس کے کاروبار سے جڑے افراد بھی ان اثرات سے محفوظ نہیں رہے۔ تاہم جیسے جیسے کورونا کیسز اور اس کی وجہ سے عائد پابندیوں میں کمی آتی گئی دیگر کاروباروں کی طرح یہ روزگار بھی آہستہ آہستہ بحال ہونے لگا۔

اس حوالے سے خصوصی گفتگو میں پشاور کے ایک تاجر انوار احمد نے بتایا کہ کورونا کی لہر میں کمی اور عائد پابندیوں میں نرمی آئی تو ڈیمانڈ ایک دم سے زیادہ ہو گئی، ”لوگوں نے شادیاں نہیں کی تھیں، تقریباً دو سال سے شادیاں رکی ہوئی تھیں اس لئے لوگ ہمارا لباس مانگنے لگے، اتنے آرڈر آنے لگے کہ ہمیں ورکروں کی تعداد میں تین گنا اضافہ کرنا پڑا، کام کے اوقات کار بھی بڑھائے لیکن اس کے باوجود ہم گاہکوں کی ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر رہے، تین چار مہینے یہ صورتحال رہی جو اب آہستہ آہستہ نارمل ہو رہی ہے۔”

انہوں نے بتایا کہ پورے ریجن خصوصاً پاکستان میں دیکھیں تو سب سے زیادہ پشاور میں ہی افغان روایتی ملبوسات زیادہ مقدار میں بنتے ہیں، پھر یہاں پشاور میں ایک جگہ اکبر پلازہ ہے جہاں کسٹمائزیشن بہت اچھے طریقے سے اور ماڈرن ٹچ بھی بڑے اچھے طریقے سے دیا جاتا ہے، یہاں کوالٹی کو برقرار رکھا جاتا ہے، کچھ اور مارکیٹس بھی ہیں لیکن وہ ہول سیل پے کام کرتے ہیں۔

انوار احمد کے مطابق انہیں زیادہ تر آرڈرز پاکستان میں پشاور سے، کوئٹہ اور کراچی سے ملتے ہیں جبکہ بیرون ملک یورپ خصوصاً جرمنی سے زیادہ آرڈرز ملتے ہیں، پھر ہو لینڈ سے، یو کے سے، امریکہ اور آسٹریلیا، ان چار ممالک سے انہیں زیادہ آرڈرز موصول ہوتے ہیں۔

اس حوالے سے افغان خاتون صحافی وگمہ فیروز کا کہنا تھا کہ آج کل ہم دیکھیں تو افغان ڈریسز کو اپنے کلچر کے علاوہ دیگر کلچرز نے بھی اپنانا شروع کر دیا ہے، ”ہم دیکھتے ہیں کہ پنجابی لڑکیاں اکثر جب ٹک ٹاک بناتی ہیں تو ہم ان کو اکثر دیکھتے ہیں کہ انہوں نے پشتون لباس پہنا ہوتا ہے، ملک کے باہر بھی ہم دیکھیں تو لوگ اس کو بہت پسند کرتے ہیں، اور اکثر فلم میں بھی دیکھیں، ڈرامے اور گانوں میں بھی استعمال ہوتا ہے کیونکہ یہ کلرفل (اس میں بہت رنگ ہوتے ہیں) اور بڑے دلکش بھی ہوتے ہیں۔

انہوں نے بتایا، ”مجھے خود بھی بہت زیادہ پسند ہے اپنا روایتی لباس، اسے پہنتی بھی ہوں، اکثر ملک سے جب باہر جاتی ہوں تو ساتھ لے جاتی ہوں، لوگ اس کی بہت تعریف کرتے ہیں، بہت لوگوں کو پسند بھی آتا ہے اور پھر اکثر لوگ ڈیمانڈ بھی کرتے ہیں۔”

اس حوالے سے خاتون سوشل ورکر اور صحافی ثنا اعجاز نے کہا کہ جب افغان لباس کی بات ہوتی ہے تو ڈیورنڈ لائن کے دونوں جانب بسنے والے اسے پسند کرتے ہیں اور اسے پہنتے بھی ہیں، ”جب ہم خیبر پختونخوا کی بات کرتے ہیں تو عام معمول میں اسے نہیں پہنا جاتا لیکن شادی بیاہ جیسے خاص مواقع پر اسے پہنا جاتا ہے، جب ہم جنوبی پشتونخوا یعنی بلوچستان کی بات کرتے ہیں تو وہاں یہ لباس معمول میں پہنا جاتا ہے، اگر ہم وسطی پشتونخوا کی بات کریں کہ وزیرستان میں یہی لباس ”گنڑخت” کی شکل میں موجود ہے جو کہ دس سے انیس گز کے کپڑے سے بنتا ہے، زیادہ کام کندھے، آستین اور گلابند پر ہوا ہوتا ہے، اسے مہمند میں سادہ پہنا جاتا ہے، یہ لباس اک ہی ہے تاہم اس کے کندھے، آستین، گلابند اور دامن پر ہوا کام مختلف ہوتا ہے۔”

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button