خیبر پختونخوا: اومیکرون کی شرح میں اضافہ، ویکسینیشن کے رجحان میں کمی
حناء واجد، زاہد جان، جاوید محمود
خیبر پختونخوا میں کورونا وائرس کی نئی قسم اومی کرون کی شرح میں اضافہ ہوا ہے مگر عوام کی جانب سے ویکسین لگوانے کے رجحان میں کمی دیکھنے میں آ رہی ہے لیکن محمکہ صحت کے حکام اس تاثر کو رد کر کے کہتے ہیں کہ ہسپتالوں میں لوگوں کے آنے کی شرح اس لئے کم ہے کہ محکمہ صحت کی ٹیمیں اب گھر گھر جا کر ویکسین لگا رہی ہیں۔
ویکسین لگانے کی شرح کم ہونے پر عوام کیا رائے رکھتی ہے، تو اس پر محب بانڈہ سے مسرت نامی خاتون کا خیال ہے کہ ان کا حکومت پر اعتماد ختم ہو گیا اور وجہ یہ بتا رہی ہیں کہ کورونا کی مختلف قسمیں سامنے آ رہی ہیں جس پر ہمیں شک ہو رہا ہے جس کی وجہ سے ہم میں سے ڈر اور خوف ختم ہو گیا۔
ان کا کہنا ہے کہ کورونا ویکسین میں شرح کی کمی کی ایک خاص وجہ یہ بھی ہے کہ اب بھی خواتین میں افواہیں سرائیت کر رہی ہیں جن میں ویکسین لگانے کے دو سال بعد مرنا، سخت بخار کا ہونا اور بانجھ پن کا شکار ہونا شامل ہیں۔
دوسری خاتون علینہ گل کا کہنا ہے کہ انہوں نے خود ویکسین لگائی تھی جس کی وجہ سے انہیں ہاتھ میں شدید درد محسوس ہوا اور پیروں میں بھی درد ہونے لگا تو ان کا خیال ہے کہ اس وجہ سے ویکسین لگانے میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر کے مطابق 14 جنوری کو 48 ہزار 449 افراد کا معائنہ کیا گیا جن میں سے 3 ہزار 567 افراد میں وائرس کی تصدیق ہوئی، ان میں 7 افراد جاں بحق ہوئے۔
ضلع باجوڑ سے ایک شخص جواد علی شان نے بتایا کہ حکومت ایس او پیز کے نفاذ میں ناکام ہو چکی ہے اور دوسرا یہ کہ میڈیا ویکسین لگانے کو اتنی کوریج نہیں دیتا جتنی دینا چاہئے تھی، ”پہلے ویکسین سے بہت سی اموات واقع ہوئی تھیں لیکن اب اموات کی شرح میں کمی سے ویکسین لگانے میں عدم دلچسپی ظاہر ہو رہی ہے۔
ڈمہ ڈولہ سے زاہد اللہ کا مطالبہ ہے کہ ویکسین لگانا انتہائی ضروری ہے کیونکہ ڈاکٹروں کے مطابق ویکسین لگانے کے بغیر اس بیماری سے جان بچانا نہایت مشکل ہے۔
ضلع چارسدہ کے علاقہ نستہ میں جہاں پر ڈاکٹروں کے مطابق پہلے ہی سے ویکسین لگانے میں عوام کی دلچسپی کی شرح کم ہے لیکن وہاں پر موجود خواتین کا کہنا تھا کہ وہ بھی مختلف افواہوں کا شکار تھیں مگر علماء کے وعظ اور وباء سے بچنے کیلئے ویکسین کی اہمیت کے بیانات پر وہ ویکسین لگوانے آئی ہیں۔
بنیادی مرکز صحت نستہ میں راشدہ خاتون بھی ویکسین کیلئے آئی ہوئی ہیں اور کہتی ہیں کہ یہ ان کی پہلی ڈوز ہے، انہوں نے یہ ویکسین پہلے اس لئے نہیں لگائی کیونکہ وہ افواہوں سے متاثر تھیں لیکن جب ان کے گاؤں کی ایک عالم دین نے اس وباء سے ویکسین کے ذریعے جان بچانے کی بات کی تو وہ ویکسین لگوانے کیلئے قائل ہو گئیں۔
راشدہ کہتی ہیں کہ وہ دینی علماء پر اندھا اعتماد کرتی ہیں اور وہاں سے انہیں ریڈیو پر بتایا جاتا ہے تو اسی پر ہی عمل کرتی ہیں اور اب ان کا پورا خاندان ویکسینیٹ ہو چکا ہے۔
میڈیکل ٹیکنیشن انعام الرحمن کا کہنا ہے کہ ایک دن میں تقریباً 11 سو افراد کو ویکسین لگائی جا چکی ہیں اور بارہ سال سے زائد عمر کے لوگوں کو بھی ویکسین لگائی جاتی ہے۔
انہوں نے کورونا ویکسین میں کمی کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ اب لوگوں میں ویکسین لگانے کا رجحان زیادہ ہو چکا ہے، کہتے ہیں کہ پہلے لوگوں میں کورونا وباء کے حوالے سے شعور کم تھا مگر میڈیا کے ذریعے اب عوام کو احساس ہوا ہے کہ یہ ایک جان لیوا مرض ہے اور ویکسین ہی کے ذریعے اس مرض سے بچا جا سکتا ہے۔
انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہسپتال میں لوگوں کی تعداد کم دکھائی دے رہی ہے لیکن اس کی وجہ یہ نہیں کہ رجحان کم ہے بلکہ ہمارے محکمہ صحت کی ٹیمیں گھروں میں جا کر ان لوگوں کو کور کرتی ہیں اس لئے یہاں پر لوگوں کی تعداد کم ہے۔