لائف سٹائل

مصنوعی کھاد کی قلت اور اس کی وجوہات: ڈیلرز اور مشکلات کا شکار کاشتکار کیا کہتے ہیں؟

عبدالستار

مصنوعی کھاد کی قلت سے کاشتکار سخت مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں جس سے گندم کی پیداوار میں کمی کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔

ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں خیبر پختونخوا کے انجمن کاشتکاران کے صدر نعمت شاہ روغانی نے کہا کہ گندم کی بوائی کے وقت بھی کاشتکار ڈی اے پی کھاد کی زیادہ قیمت کی وجہ سے گندم کو ڈی اے پی کھاد نہ دے سکے اور اب ایک ڈی اے پی بوری کھاد کی قیمت دس ہزار سے زیادہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت گندم کی فصل کو یوریا کی ضرورت ہے لیکن مارکیٹ میں یوریا کھاد نہیں مل رہی اور اگر کسی ڈیلر کے پاس ہے بھی تو وہ سترہ سو روپے قیمت والی بوری 33 سو روپے پر بلیک میں فروخت کر رہا ہے جو کہ کاشتکار کی دسترس سے باہر ہے، ”کھاد مہنگی اور ناپید ہونے سے اس سال گندم کی پیداوار شدید متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔”

نعمت شاہ روغانی نے کہا کہ میں ایک کاشتکار ہوں اور پچھلی حکومتیں کاشتکاروں کے ساتھ گندم کی بوائی کے وقت ضلعی انتظامیہ کو مقامی کاشتکاروں کے ساتھ میٹنگ کے لئے ہدایت جاری کرتی تھیں تاکہ زیادہ غلہ اگاؤ مہم کامیاب ہو سکے اور اس سلسلے میں مقامی کاشتکاروں کے ساتھ ملاقاتوں میں ان کے مسائل سنتے لیکن موجودہ حکومت نے اس سلسلہ کو بھی ختم کر دیا ہے۔

نعمت شاہ روغانی کے مطابق نہ صرف یوریا بلیک میں فروخت ہو رہی ہے بلکہ نائٹروپاس کے سرکاری نرخ پندرہ سو روپے ہیں لیکن مارکیٹ میں 2600 روپے پر مل رہی ہے اور اس طرح سپرفاسفیٹ کا کنٹرول ریٹ 1200 روپے ہے اور بلیک میں 2600 روپے پر فروخت ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈیلروں کے پاس گوداموں میں بڑی تعداد میں یوریا اور دیگر کھادیں پڑی ہیں لیکن مارکیٹ میں قلت پیدا کر کے کاشتکاروں پر منہ مانگے داموں فروخت کر رہے ہیں جس کے لئے ان کے ساتھ فرٹیلائزر کمپنیوں کے منیجرز بھی ملے ہوئے ہیں۔

ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں ضلع مردان کے مصنوعی کھاد ڈیلر ملک اسد نے بتایا کہ اس وقت  ڈیلرز کو یوریا کھاد کی سپلائی فرٹیلائزر کمپنیوں سے بہت کم ہو رہی ہے اور کمپینوں نے جو سپلائی کی وہ بھی انڈسٹریوں کو کر دی گئی جو دوسری مصنوعات بنانے میں استعمال ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ گندم فصل کی بوائی کے وقت ڈی اے پی کھاد انتہائی مہنگی کر دی گئی جس سے کاشتکاروں نے یوریا کا استعمال زیادہ کیا جس کی وجہ سے ڈیمانڈ زیادہ ہو گئی جبکہ دوسری وجہ کمپنیاں ڈیلرز کو ایک فارمولے کے تحت کھاد کی سپلائی کرتی ہیں جس میں دو بوری یوریا کے ساتھ ایک بوری ڈی اے پی بھی لینا ہوتی ہے جبکہ کاشتکار ڈی اے پی کو دس ہزار پر فی بوری لینے کو تیار نہیں ہیں اور ڈیلرز کو ڈی اے پی کو سستا اور یوریا بوری کو مہنگا کرنا پڑتا ہے۔

ملک اسد نے کہا کہ اس سال سوائے ایک کمپنی کے باقی کمپنیوں نے خیبر پختونخوا کا یوریا کوٹہ پنجاب میں فروخت کیا اور وہاں سے دوسرے صوبوں کے راستے افغانستان سمگل ہو گیا۔ انہوں نے کہا کہ ضلع مردان کے ڈیلرز کو کمپنیوں کی جانب سے دیے گئے یوریا کھاد کے کوٹے میں سے چالیس ہزار بوری گلو بنانے والی فیکٹری جبکہ تیس ہزار بوری دوسری فیکٹری کو دی جاتی ہیں، یہ بھی یوریا کھاد کی قلت میں ایک اہم وجہ ہے۔

ملک اسد کے مطابق کھادوں کی یہ قلت فروری کے پہلے ہفتے میں ختم ہو جائے گی لیکن حکومت کی جانب سے نرخ بڑھا دیئے گئے ہیں اور اس وقت ایک بوری ڈی اے پی کا نرخ 9950 روپے مقرر کیا گیا ہے۔

محکمہ زراعت سے وابستہ ماہر زراعت محمد وسیم نے بتایا کہ یوریا کھاد کا استعمال گندم کے لئے نہایت ضروری ہوتا ہے اور ایک ایکڑ (دو جریب) زمین کے لئے دو بوری کھاد فصل کے لئے درکار ہوتی ہے، ”یوریا فصل کو پروٹین اور نائٹروجن مہیا کرتی ہے اور گندم کے پودے کو سبز رکھتی ہے۔

محمد وسیم نے کہا کہ اگر یوریا دستیاب نہ ہو تو ناٹریٹ کھاد بھی استعمال کی جا سکتی ہے اور آرگینک کھاد (ڈھیران) بھی کسی حد تک یوریا کی کمی کو پورا کر سکتی ہے، ”گندم کو یوریا کی پہلی ڈوز بوائی کے وقت اور دوسری ڈوز دسمبر سے فروری تک دی جاتی ہے اور بعد میں فصل کو یوریا دینے سے پودے کو فائدہ کم مل جاتا ہے۔

اس وقت فرٹیلائزر کمپنیوں کی جانب سے یوریا پچاس کلو بوری کی قیمت 1768 روپے مقرر کی گئی ہے جس کی پرائس لسٹ ٹی این این کے پاس موجود ہے جبکہ  ڈی اے پی کی بوری کی قیمت کمپنیوں کی جانب سے 9950 روپے مقرر کی گئی ہے۔

خیال رہے کہ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کچھ ہی روز قبل کہا تھا کہ چین سے 50 ہزار ٹن کھاد کا پہلا جہاز 10 فروری کو پہنچے گا، ای سی سی نے چین سے ڈیڑھ لاکھ ٹن کھاد درآمد کرنے کی منظوری دی ہے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بیان میں انہوں نے کہا کہ جنوری سے 6 لاکھ ٹن مقامی کھاد بھی مارکیٹ میں آنا شروع ہو جائے گی، عالمی منڈی میں بہت زیادہ قیمت کے باوجود ہمارے کسان کو کھاد کی کمی کا سامنا نہیں ہو گا۔

یہ بھی یاد رہے کہ رواں ماہ وفاقی وزیر برائے اقتصادیات خسرو بختیار نے سینیٹ کو بریف کرتے ہوئے سندھ حکومت پر الزام عائد کیا تھا کہ سندھ سے کھاد افغانستان سمگل کی جاتی ہے جس کی وجہ سے ملک میں اس کی قلت پیدا ہو گئی ہے تاہم سندھ حکومت نے اس الزام کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ بارڈر کنٹرول وفاقی حکومت کے پاس ہوتا ہے اس لئے کھاد کی (یا دیگر) سمگلنگ روکنا اسی کی ذمہ داری ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button