ٹیکے لگانے والی خواتین کو لوگوں کے عجیب و غریب بہانے
مردان پی پی آئی ہسپتال میں کام کرنے والی لیڈی ہیلتھ ورکر نیلم ویکسینیشن کے دوران اپنی مشکلات کے بارے میں کہتی ہے کہ جب وہ گھروں میں ویکسینیشن کے لئے جاتی ہے تو اکثر خواتین انہیں شناختی کارڈ کی عدم موجودگی کا بہانہ بناتی ہیں کبھی کہتی ہیں کہ انکا شناختی کارڈ بلاک ہے یا گم ہوگیا ہے یا انکے شوہر اپنے ساتھ لے گئے ہیں تو اس وجہ سے وہ انکی ویکسین نہیں کرا پاتی۔
نیلم کا کہنا ہے کہ پہلے وہ ‘ماں بچے کی صحت’ کے پروگرام میں کام کرتی تھی جس میں وہ بچے کی پیدائش سے لیکر انہیں صحت مند رکھنے تک بچے اور ماں کی صحت کے جائزے کے عمل تک کا کام کرتی لیکن کورونا وبا کی وجہ سے اب انکی اس ڈیوٹی پر منفی اثرات پڑے ہیں۔
کہتی ہے کہ اب وہ بغیر کسی ہفتہ وار چھٹی کے کورونا ویکسین لگانے میں مصروف عمل رہتی ہے اور ماں اور بچے کی صحت کا پروگرام پس پشت چلا گیا ہے جس کی وجہ سے نہ ہم بچے کا وزن یا ماں کی صحت کے بارے میں علم رکھتے ہیں تو اس سے ماں اور بچے کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہونے کے امکانات زیادہ ہونگے۔
نیلم کا کہنا ہے کہ انکے علاقے میں اکثر لوگ ویکسین سے انکاری تھے اور اوپر انکے افسران ان سے روزانہ کی بنیاد پر رپورٹ مانگتے مگر جب ہم کسی گھر میں جاتے تو اکثر خواتین یہ کہا کرتی کہ "ویکسین لگانا یا نہ لگانا انکا ذاتی مسئلہ ہے آپ ہمارے اوپر زبردستی نہیں کرسکتے”۔
اسی طرح دوسری لیڈی ہیلتھ ورکرز کہتی ہے کہ پہلے وہ معمول کے مطابق آٹھ گھنٹے تک کام کرتی لیکن جب کورونا وائرس شروع ہوا تو انکی ڈیوٹی میں اضافہ ہوا یہاں تک کہ اب وہ دن رات اسی ڈیوٹی کو سرانجام دے رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ انکی ڈیوٹی نہایت مشکل ہوچکی ہے کیونکہ آبادی کے لحاظ سے لیڈی ہیلتھ ورکرز کی تعداد نہایت کم ہے اور اوپر سے انہیں ہر کسی کی باتیں بھی سننی پڑتی ہے مگر وہ اس سے مایوس نہیں ہوتی کیونکہ انکی تربیت ہی ایسی ہوئی ہے کہ اگر کوئی جو کچھ بھی بولے وہ عوام کی صحت بچانے کے کام کرتے رہیں گی۔
کمیونٹی اور بالخصوص خواتین اگر ایک جانب کورونا ویکسین سے انکاری ہیں تو دوسری جانب میڈیا مہم کے بعد کچھ خواتین ان ویکسین کو اپنی صحت کا ضامن سمجھتی ہے۔
ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والی سمیرا کا کہنا ہے کہ لیڈی ہیلتھ ورکرز نہایت احسن کام کر رہی ہیں، کہتی ہے کہ انکے مرد اکثر خواتین کو باہر علاج کیلئے جانے کی اجازت نہیں دیتے جس کی وجہ سے خواتین مختلف بیماریوں میں مبتلا رہتی ہے اگر لیڈی ہیلتھ ورکرز نہ ہوتی تو شائد یہاں پر خواتین میں بیماریوں کی وجہ سے اموات کی شرح بڑھ جاتی۔
اسی طرح پشاور سے شبنم نامی لڑکی کا کہنا ہے کہ انکی ماں کو گھٹنوں میں سخت تکلیف تھی اور وہ ہسپتال جانے کی قابل نہیں تھی لیکن لیڈی ہیلتھ ورکرز کی بار بار وزٹ سے انکا علاج معالجہ گھر پر ہوا جس کی وجہ سے اب وہ مکمل طور پر صحت یاب ہے۔ کہتی ہے کہ اگر لیڈی ہیلتھ ورکر یا دوسرا ایسا کوئی ادارہ نہ ہوتا تو شائد آج انکی ماں اپاہج ہوتی۔
گھر پر بیٹھی خواتین نے اس بات پر زور دیا کہ خواتین کی صحت کیلئے ضروری ہے کہ لیڈی ہیلتھ ورکرز کے ساتھ معاشرے کی طرف سے مثبت رویہ اختیار کیا جائے تاکہ ایک صحتمند معاشرہ تشکیل ہوسکیں۔
اس سٹوری کے لیے رانی عندلیب، مہرین اور حنا خان نے معلومات فراہم کی ہے۔