لائف سٹائل

2 کروڑ 85 لاکھ کا ایک مارخور، چترال گول نیشنل پارک میں 800 کم نکلے، گنتی کیلئے دوسری کمیٹی تشکیل

گل حماد فاروقی

گزشتہ دنوں مقامی میڈیا میں خبر چلی کہ چترال گول نیشنل پارک میں 800 مارخور کم نکلے جس پر چترال سے منتحب رکن قومی اسمبلی نے بھی نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے الزام لگایا کہ چترال گول نیشنل پارک ایک پروٹیکٹڈ یعنی محفوظ پارک ہے جہاں ہر قسم قانونی شکار پر بھی پابندی ہے مگر لگتا یہ ہے کہ ان مارخوروں کے شکار میں اپنے ہی لوگ ملوث ہیں۔

انہی دنوں وزیر اعلیٰ خیبر پحتون خوا نے چترال کا دورہ کیا تھا اور اسی دن شام کو ایک وزیر سے ایک ٹوئٹر پیغام منسوب کیا گیا کہ پہلی بار مارخور کا گوشت کھا لیا، بہت لذیز تھا۔ ایم این اے مولانا عبد الاکبر چترالی نے اس پر کافی احتجاج کیا تھا جس کے بعد چترال گول نیشنل پارک کے کور زون میں مارخوروں کی دوبارہ گنتی کرائی گئی۔ ان دنوں سارے مارخور پہاڑوں سے نیچے اترتے ہیں اور گنتی کیلئے یہ موسم نہایت موزوں بھی ہے۔

چترال کے ایک مقامی آن لائن اخبار نے بھی اس بارے میں خبر لگائی تھی کہ مارخوروں کی گنتی کا عمل مکمل ہوا اور مارخور ایک بار پھر کم پڑ گئے۔ اسی اخبار کے مطابق پچھلے سال مارخوروں کی تعداد 2000 ظاہر کی گئی تھی مگر اس سال صرف 1200 مارخور پائے گئے۔ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ اگر 2019 میں مارخوروں کی تعداد دو ہزار تھی تو اس سال اس کی تعداد 2600 ہونا چاہئے تھی کیونکہ چترال گول نیشنل پارک میں ہر قسم کے شکار پر پابندی ہے اور مارخوروں کی تعداد ہر سال بڑھتی جاتی ہے۔

ذرائع نے اسے غلط سروے اور محکمہ جنگلی حیات کی غلط پالیسی کا نیتجہ قرار دیا اور انکشاف کیا کہ چترال گول نیشنل پارک میں بارہ سو سے زیادہ مارخوروں کیلئے خوراک ہی نہیں ہے۔ اس سلسلے میں ڈی ایف او چترال گول نیشنل پارک اور چیئرمین وی سی سی سے بار بار رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی مگر ان کی طرف سے کوئی موقف سامنے نہیں آیا۔

سابقہ انسپکٹر جنرل آف فارسٹ سے بھی اس سلسلے میں معلومات لی گئیں جن کا کہنا تھا کہ کمیونٹی واچروں کی تنخواہیں بند کی گئی ہیں اس لئے اب وہ لوگ مارخوروں کی حفاظت کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں لیتے۔

سابق چیف کنزریوٹر ڈاکٹر ممتاز ملک سے بات کی گئی تو انہوں نے بھی تصدیق کی کہ کمیونٹی واچرز ان مارخوروں کی اچھی طرح دیکھ بھال اور حفاظت کر رہے تھے اب ان کی تنخواہیں دو سالوں سے بند ہیں اور محکمے کے پاس واچروں کی تعداد بہت کم ہے، ہو سکتا ہے کہ کوئی گڑ بڑ ہوئی ہو۔

انسپکٹر جنرل آف فارسٹ نے انکشاف کیا کہ اس سلسلے میں 25 دسمبر سے دوسری کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو مارخوروں کی صحیح گنتی کرے گی، یہ سروے 5 جنوری تک جاری رہے گا، IUCN پاکستان، WWF پاکستان، نیچرل ہسٹری میوزیم اسلام آباد، ٹین بلین ٹری سونامی پراجیکٹ اور خیبر پحتون خوا وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ مل کر سروے کر رہے ہیں، اس کی سربراہی زولاجیکل سروے آف پاکستان کے پاس ہے اصل تعداد کی رپورٹ سروے مکمل ہونے کے بعد منظر عام پر آئے گی۔

انسپکٹر جنرل فارسٹ سید محمود ناصر نے بھی اس بات پر نہایت تشویش کا اظہار کیا کہ قومی جانور مارخور کی تعداد کم نہیں بلکہ زیادہ ہونا چاہئے کیونکہ ہر سال چترال گول نیشنل پارک کے علاوہ دیگر وی سی سی میں اس کی ہنٹنگ ٹرافی کی بین الاقوامی سطح پر بولی لگائی جاتی ہے اور سب سے زیادہ بولی دینے والے کو ہنٹنگ ٹرافی کا لائسنس مل جاتا ہے جو ڈیڑھ سے دو کروڑ روپے میں بکتا ہے، اس میں سے اسی فیصد مقامی لوگوں کو جبکہ بیس فی صد سرکاری خزانے میں جمع ہوتا ہے۔

واضح رہے کہ چترال نیشنل گول پارک اور دیگر وییلیج کنزرویشن کمیٹی کے علاقوں میں غیرقانونی شکار ماضی میں بھی کیا جاتا تھا جس پر کئی بار محکمہ جنگلی حیات کے عملہ نے غیرقانونی شکار کرنے والوں کے حلاف کارروائی بھی کی ہے۔ اس سال بھی ایک بااثر سیاح نے توشی میں ایک مارخور کو زحمی کیا تھا جو بعد میں مر گیا مگر کسی ملزم کو سزا نہیں ہوئی نہ ہی کوئی گرفتار ہوا کیونکہ اس کی FIR حسب روایت نامعلوم ملزمان کے خلاف کاٹی گئی تھی، اب نامعلوم ملزمان کو کون پکڑے یہ ایک بڑا سوال ہے۔

خیال رہے کہ ایک امریکی شہری نے حال ہی میں اک مارخور کا شکار کیا ہے جس کے لئے اس نے ایک لاکھ ساٹھ ہزار ڈالر ادا کئے تھے، پاکستانی کرنسی میں جو دو کروڑ پچاسی لاکھ روپے بنتے ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button