تبدیلی سرکار نے چترال کے عوام اور جنگلات پر ایک اور بم گرا دیا، سابقہ حکومت میں منظور شدہ ایل پی جی گیس پلانٹ کا منصوبہ گلگت منتقل
گل حماد فاروقی
تبدیلی سرکار نے چترال کے عوام اور ضلع کے جنگلات پر ایک اور بم گرا دیا۔ سابق وزیرا عظم میاں نواز شریف کے دور حکومت میں چترال کے جنگلات کو بچانے کیلئے LPG گیس پلانٹ کا منصوبہ منظور ہوا تھا جس کے تحت دروش، بروز اور سینگور کے مقام پر کروڑوں روپے کی لاگت سے ضلعی انتظامیہ نے سیکشن فور لگا کر زمین بھی خریدی جو زیادہ تر زرعی زمین تھی اور ایک بورڈ بھی نصب کیا گیا کہ یہ زمین ایل پی جی گیس پلانٹ کیلئے محتص ہے، وہ زمین ابھی تک بنجر پڑی ہے کیونکہ سرکار اس میں کچھ کاشت نہیں کرتی جبکہ مالکان کا کوئی قانونی حق نہیں رہا۔
تاہم تبدیلی سرکار نے LPG گیس پلانٹ کا منصوبہ اس لئے منسوح کر دیا تاکہ اس کا کریڈٹ میاں نواز شریف کو نہ جائے حالانکہ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے اس کا باقاعدہ افتتاح بھی کیا تھا۔ اس منصوبے کی منسوخی پر علاقے کے عوام بہت مایوس ہیں۔
دین محمد سینگور کا رہنے والا ہے، اس کی زمین بھی سرکار نے گیس پلانٹ کیلئے خریدی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم اس زمین سے فصل حاصل کرتے تھے مگر گیس پلانٹ کیلئے اسے خریدا گیا، ہم خوش تھے کہ دھویں سے بچ جائیں گے اور ہمارے جنگلات بھی بے دریغ کٹائی سے محفوظ رہیں گے مگر اس زمین پر وہ بھی نہیں بنا اور ہم ایک بار پھر لکڑی جلانے پر مجبور ہیں۔ انہوں نے وزیر اعظم پاکستان عمران خان سے مطالبہ کیا کہ اس منصوبے کو دوبارہ بحال کریں، بے شک اس کا کریڈٹ عمران خان لے لیں مگر ہمارے جنگلات پر رحم کریں۔
اکرام الدین نے بتایا کہ اس پلاٹ کو پچھلی حکومت نے گیس پلانٹ کیلئے خریدا تھا مگر موجودہ حکومت نے اسے گلگت بلتستان منتقل کر دیا اور یہاں لوگ لکڑی جلا رہے ہیں جس سے جنگل بھی حتم ہوتا ہے اور اس کا نرخ بھی بہت زیادہ ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس زمین کو جس مقصد کیلئے خریدا گیا وہ منصوبہ منسوخ کیا گیا جو ہمارے ساتھ سراسر ظلم ہے۔
طالب علم ذیشان رحمت کا کہنا تھا کہ یہاں بہت زیادہ سردی ہوتی ہے لوگ خود کو سردی سے بچانے کیلئے لکڑی جلاتے ہیں، پچھلی حکومت نے گیس پلانٹ کیلئے یہ زمین خریدی تھی تو ہم بہت خوش تھے مگر خان صاحب نے اسے منسوخ کر دیا۔ ہم طلباء لکڑی جلاتے ہیں تو دھویں کی وجہ سے ہماری نظر حراب ہوتی ہے اور بیمار بھی پڑتے ہیں لہذا ہماری وزیر اعظم سے درخواست ہے کہ اس منصوبے کو واپس لائیں اور ہمیں گیس فراہم کر کے ہمارے جنگلات پر ترس کھائیں۔
انہوں نے کہا کہ ایک طرف خان صاحب دعوی ٰکرتے ہیں کہ ملک میں دس ارب درخت لگائیں گے لیکن پہلے چترال کے جنگلات بھی گھنے تھے اور پہاڑوں پر ہر جگہ جنگل ہوا کرتا تھا مگر آج کل وہ سارے جنگل حتم ہوئے اور یہ پہاڑ لق دق ریگستان کی طرح لگتے ہیں، لوگ مجبوری کے تحت شاہ بلوط کے درخت کو کاٹتے ہیں جو سو سالوں میں اس حد تک پہنچتے ہیں اور ان کی بڑھوتری یعنی گروتھ بہت سست رفتاری سے ہوتی ہے۔
متعلقہ اداروں کے ریکارڈ کے مطابق چترال میں سالانہ 2 کروڑ 30 لاکھ من لکڑی جلائی جاتی ہے جس میں 95% شاہ بلوط کے جنگل سے آتی ہے، شاہ بلوط بہت آہستہ آہستہ بڑھتا ہے، سو سال میں ایک درخت بنتا ہے مگر اس کی کٹائی پر صرف چند منٹ لگتے ہیں۔ چترال کے لوگ کھانا پکانے اور خود کو شدید سردی سے بچانے کیلئے مجبوراً سوختنی لکڑی جلاتے ہیں جس سے ایک طرف جنگل تباہ ہو رہا ہے تو دوسری طرف دھویں کی وجہ سے ماحولیات پر بھی برے اثرات پڑتے ہیں۔
چترال میں ایل پی جی گیس منصوبے کی منسوخی سے نہ صرف چترال کے ماحولیات پر نہایت منفی اثرات پڑتے ہیں بلکہ اس سے پورا حطہ متاثر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں صدیوں پرانے برفانی تودے تیزی سے پگھل رہے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک طرف عمران خان دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ملک میں دس ارب پودے لگائیں گے مگر دوسری طرف لوگوں کو 100 فی صد کامیاب درختوں کو کاٹنے پر مجبور کر رہے ہیں اور جنگلات کی اس طرح بے دریغ کٹائی کی وجہ سے سیلاب اور دیگر قدرتی آفات کی صورت میں ہر سال بڑے پیمانے پر جانی اور مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
چترال کے سیاسی اور سماجی حلقوں نے تبدیلی سرکار سے پرزور مطالبہ کیا کہ چترال کے عوام کو مفت یا سستی بجلی دی جائے تاکہ کھانا پکانے اور خود کو گرم رکھنے کیلئے لکڑی جلانے کی ضرورت نا پڑے یا پھر اس گیس منصوبے کو فوری بحال کریں تاکہ چترال کا جنگل بچ جائے اور اس کے نقصانات سے پورے ملک کو بچایا جا سکے۔