پاکستان میں صحت سہولیات کا ڈھانچہ سب سے بڑا لیکن نتیجہ تقریباً زیرو کیوں ہے؟
عبدالستار مہمند
پاکستان پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن (PPA) و دیگر ماہرین نے کہا ہے کہ پاکستان میں نوزائیدہ بچوں کی اموات کی بنیادی وجوہات میں سے ایک تربیت کا فقدان اور آگاہی کا نا ہو نا ہے۔
ایسو سی ایشن کی نینوٹالوجی ونگ کی جانب سے یونیسف کے تعاون سے ایم ٹی آئی گجوخان میڈیکل کالج میں نوزائدہ بچوں کی اموات اور صحت کے حوالے سے منعقدہ تربیتی ورکشاپ سے خطاب میں یونیورسٹی آف چائلڈ ہیلتھ لاہور کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر مظہر قادر نے بتایا کہ بدقسمتی سے پاکستان اس وقت نوزائیدہ بچوں کی صحت کے معاملے میں بہت پیچھے ہے جس کی بنیادی وجہ نوزائید بچوں کی صحت کے بارے میں معلومات اور آگاہی کا نہ ہونا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ تیس فیصد بچے پیدائش کے صرف پانچ منٹ بعد وفات پا جاتے ہیں جبکہ باقی ستر فیصد اموات مختلف انفیکشن اور دیگر بیماریوں کے سبب واقع ہوتی ہیں۔
ماسٹر ٹرینر ڈاکٹر سجادالرحمن، ڈاکٹر حاجی گل اور ڈاکٹر مظہر قادر نے نیونیٹل لائف سپورٹ (NEOLIS) ورکشاپ میں شرکاء کو پیدائش کے فوراً بعد بچوں کی دیکھ بھال اور بیماریوں سے دور رکھنے اور انہیں ہینڈل کرنے کے طریقے سکھائے، ماہرین نے عملی مظاہرہ کر کے ڈاکٹروں کو آگاہ کیا۔
ورکشاپ میں گائنی وارڈ، پیڈریاٹک وارڈ، تحصیل ہسپتال لاہور، ڈی ایچ کیو ہسپتال کے علاوہ پورے ضلع سے ڈاکٹروں نے شرکت کی۔۔ شرکا نے ورکشاپ کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے بتایا کہ اس قسم کی آگاہی ورکشاپ سے بچوں کی اموات میں کمی لائی جا سکتی ہے۔
ورکشاپ سے خطاب میں پیڈریاٹک وارڈ کے انچارج ڈاکٹر سجاد الرحمن نے بتایا کہ پاکستان میں ہر ایک ہزار میں سے 41 بچے پیدا ہوتے ہی یا کچھ دیر بعد دنیا سے کوچ کر جاتے ہیں، اس قسم کے ورکشاپ سے نہ صرف بچوں کی اموات پر قابو پایا جا سکے گا بلکہ بچوں کو مختلف بیماریوں سے بچاو کے طریقہ کار میں بھی مدد ملے گی۔ اس ورکشاپ کے بعد ماسٹر ٹرینرز صوابی کے بعد مردان، پشاور اور سوات میں بھی آگاہی سیمنار اورورکشاپ کا انعقاد کریں گے جس سے نہ صرف صوبے بلکہ پورے ملک میں بچوں کی بڑھی ہوئی شرح اموات میں کمی لائی جا سکے گی۔
اسی طرح مردان میڈیکل کمپلیکس میں یونیورسل ہیلتھ کوریج ڈے بھرپور انداز میں منایا گیا۔ اس حوالے سے ہسپتال میں سیمینار اور واک کا اہتمام بھی کیا گیا جس میں ڈبلیو ایچ او کے کنٹری ڈائریکٹر پالیتھا ماہی پالا، وی سی ہیلتھ سروسز اکیڈمی اسلام آباد ڈاکٹر شہزاد علی، ڈپٹی ڈائریکٹر صحت کارڈ پلس کے پی ڈاکٹر عامر رفیق اور بی او جی چیئرمین ڈاکٹر محمد جاوید نے شرکت کی۔
سیمینار کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے وی سی ہیلتھ سروسز اکیڈمی اسلام آباد ڈاکٹر شہزاد علی نے کہا کہ پاکستان میں حکومت کی سطح پر دنیا کا سب سے بڑا صحت سہولیات کا ڈھانچہ موجود ہے لیکن یہاں پر بیماریوں کی روک تھام کی بجائے سارے ذرائع علاج پر خرچ کئے جا رہے ہیں۔
مقررین نے موجودہ اور آنے والے چیلنجز سے نمٹنے کے لئے جدید دور کے تقاضوں سے خود کو ہم آہنگ کرنے پر زور دیا۔ ڈپٹی ڈائریکٹر صحت کارڈ پلس کے پی ڈاکٹر عامر رفیق نے کہا کہ پاکستان میں باالعموم اور خیبر پختونخوا میں باالخصوص ہیلتھ ریفارمز کو متعارف کیا گیا جن میں صحت کارڈ پلس سرفہرست ہے جس سے لاکھوں کی تعداد میں لوگ مفت علاج کی سہولت سے مستفید ہو رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت صوبے میں لوگوں کو مفت تشخیص اور علاج کے لئے 23 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، حکومت اس پروگرام میں او پی ڈی سہولت شامل کرنے جا رہی ہے، ضم اضلاع کو بھی اگلے سال اس پروگرام میں شامل کیا جا رہا ہے جہاں کی ایک خاص آبادی کو وفاق کی طرف سے سالانہ سات لاکھ تک کی مفت علاج کی سہولت فراہم کی جا رہی ہے، ایم ایم سی میں نئے مالی سال کے دوران 6000 سے زائد مریضوں کے علاج معالجے پر ساڑھے چار کروڑ روپے صحت کارڈ پلس کے ذریعے خرچ کئے گئے ہیں۔
چیئرمین بی او جی ڈاکٹر محمد جاوید خان نے کہا کہ اس وقت ایم ایم سی میں 50 فیصد سے زائد مریضوں کا علاج صحت کارڈ پلس کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ جون 2022 تک ہسپتال میں 100 فیصد مریضوں کا علاج صحت کارڈ پلس کے ذریعے کیا جائے گا۔