لائف سٹائل

منشیات نیٹ ورکس کے 401 ملزمان میں صرف دو کو سزا ہوئی ہے: چارسدہ پولیس

رفاقت اللہ رزڑوال

"میں اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھا چرس پی رہا تھا کہ ایک دوست نے بتایا کہ ایک ایسی چیز آئی ہوئی ہے جس کے استعمال کے بعد نیند نہیں آتی، طاقت زیادہ محسوس ہوتی ہے اور مطالعہ بھی اچھی طرح ہوتا ہے، پھر دھیرے دھیرے میں آئس کے نشے کا عادی ہونے لگا”۔
اکیس سالہ ولید احمد کو اس کے والدین نے باچاخان یونیورسٹی میں تعلیم کیلئے بھیجا تھا لیکن وہ وہ گزشتہ 8 ماہ تک نشے میں مبتلا رہے ہیں اور اب ضلع چارسدہ میں منشیات کی عادی افراد کی بحالی کے سرکاری ادارے سوشل ویلفئر ری ہیب سنٹر میں زیرعلاج ہے۔
ولید احمد کا کہنا ہے کہ آئس کے نشے کے دوران واقعی وہ تین دن تک جاگے رہتے، کھانا دل کو نہیں لگتا،  مشروبات اور بسکٹ کھانے سے گزارتا تھا۔
چارسدہ کے چالیس سالہ محمد احمد بھی چارسدہ کے ایک غیرسرکاری ری ہیب سنٹر میں زیرعلاج ہے، ان کا کہنا ہے کہ وہ کان کنی کے روزگار سے وابستہ تھے اور اپنے دوستوں کی محفل سے انہیں ہرقسم کے منشیات کی لت لگی تھی۔
محمد احمد کہتے ہیں ” میں نسوار سے لیکر بچھو کا پاؤڈر بنانے تک نشہ آور مواد استعمال کرچکا ہوں پہلے میں چرس پیتا پھر ہیروئن اور آخر میں آئس شروع کیا مگر اب مجھے امید ہے کہ میں بحالی کی طرف گامزن ہوں”۔
انہوں نے کہا کہ بحالی مرکز میں انہیں انکے خاندان والوں نے داخل کروایا ہے، اُس وقت وہ بہت غصے میں تھے مگر اب میں بہت خوش ہے کہ وہ اصل زندگی کی طرف واپس آ رہا ہے۔

نشے کی بحالی میں مبتلا افراد کی بحالی میں ری ہیب مراکز کا کردار

پاکستان میں پہلے ہی سے چرس اور ہیروئن کے عادی افراد زیادہ دیکھنے کو ملتے ہیں مگر گزشتہ کچھ سالوں سے آئس کے نشے میں اضافہ ہوا ہے۔
انسداد منشیات کے وفاقی ادارے اینٹی نارکوٹیکس نے گزشتہ سال دعویٰ کیا تھا کہ آئس کے نشے میں سکول اور یونیورسٹیوں کے طلباء و طالبات شامل ہیں جس کی روک تھام کیلئے اقدامات اُٹھائے جا رہے ہیں۔
خیبرپختونخوا میں فلاحی ادارے محکمہ سوشل ویلفئر کے زیرنگرانی چلنے والے ‘لائف ویز مینٹل ہیلتھ اینڈ ڈرگ ایڈیکشن ٹریٹمنٹ سنٹر شبقدر’ منیشات کے عادی افراد کی بحالی کیلئے گزشتہ 7 سالوں سے کام کررہا ہے۔
ضلع چارسدہ کے تحصیل شبقدر میں واقع غیرسرکاری منشیات کی بحالی کے مرکز کے سربراہ شیراز خان کا کہنا ہے کہ انکے اکھٹے کئے گئے اعدادو شمار کے مطابق تقریباً 84 ہزار افراد مختلف نشہ آور مواد کے استعمال میں مبتلا ہیں جن کیلئے ضلع بھر میں صرف 17 بحالی کے مراکز ہیں جو ناکافی ہے۔
شیراز خان کہتے ہیں کہ انکے ادارے میں صرف 100 افراد کی جگہ ہے جبکہ ضلع بھر میں منشیات کی بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھ کر انکے پاس 120 افراد موجود ہیں جن میں چرس، آئس، افیون، سکون آور ادویات، آئس اور ہیروئین کے عادی 14 سال سے 60 سال تک کے افراد شامل ہیں۔
بحالی مرکز کے سربراہ کے مطابق "آئس کے نشے میں مبتلا افراد کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، نشئی افراد میں اضافے کی وجہ یہ ہے کہ ایک یہ تو آسانی سے ملتا ہے اور اسانی سے ملنے کی خاص وجہ چارسدہ کے ایک کونے سے قبائلی ضلع مومند ملتا ہے جہاں سے بآسانی ضلع بھر میں سپلائی کی جاتی ہے”۔
شیراز خان کہتے ہیں کہ نشے کی لت کی وجوہات میں دوستوں کے اصرار سے نشہ کرنا، سماجی اور گھریلو دباؤ، گھر میں ماں، باپ، بہن یا بھائی کا نشہ آور چیزوں کا استعمال، جنسی لذت کو بڑھانے کیلئے، مایوسی اور سانحات پر قابو کرنے اور درد ختم کرنے کی دوا لینے کے طور پر شامل ہیں۔

شیراز خان کا کہنا کہ اب تک وہ 10 سے 12 ہزار تک افراد کا علاج کر چکے ہیں تو اس دوران ان کا مشاہدہ رہا ہے کہ نشے میں مبتلا افراد کی عمریں 14 سے لیکر 60 سال تک ہیں جن میں خواتین اور بچياں بھی شامل ہیں جو افیون، چرس، ہیروین اور آئس نشے کا استعمال کرتے ہیں۔
خان کہتے ہیں کہ وہ اپنے ہسپتال کا سارا خرچ چندوں اور اپنے وسائل سے چلاتے ہیں ‘اگر حکومت ہمارے ساتھ تعاؤن کرے تو میں یقین دلاتا ہوں کہ ضلع بھر میں سارے منشیات کے عادی افراد کو نشے سے چھٹکارا دلا دیں گے’۔

منشیات کے عادی خواتین کی بحالی کے لئے مخصوص ادارے کیوں نہیں؟

خیبرپختونخوا کے سماجی فلاح و بہبود کے سرکاری ادارے کے ڈسٹرکٹ افسر محمد یونس آفریدی کا کہنا ہے کہ منشیات کی روک تھام کیلئے پولیس اور اینٹی نارکوٹیکس فورس اور ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن منظم اقدامات اُٹھا رہے ہیں مگر ناقص تفتیش کی وجہ سے وہ لوگ عدالتوں سے رہا ہو جاتے ہیں۔
انکے مطابق سیکیورٹی ادارے ضلع بھر میں منشیات فروشوں کے خلاف اپریشنز کر رہے ہیں جن میں گرفتاریاں بھی ہو رہی ہے اور اسی طرح سوشل ویلفئر محکمہ نشے میں لت افراد کو بحال کرنے کی غرض سے اُٹھا کر ری ہیب سنٹرز میں ڈال رہے ہیں۔
یونس آفریدی کہتے ہیں کہ گزشتہ روز کمشنر پشاور نے ایک اجلاس بلایا تھا جس میں بھکاریوں کے خاتمے اور نشے میں مبتلا افراد کی بحالی کے حوالے سے آپریشن کے احکامات جاری ہوئے، جس کی روشنی میں منشیات کے عادی افراد کی بحالی کیلئے اقدامات اُٹھائے جا رہے ہیں۔
یونس آفریدی کہتے ہیں ” پچھلے دن ایک ماں بیٹی جو چرس اور آئس کے نشے میں مبتلا تھی قبرستان سے انکو اُٹھایا اور بحالی سنٹر میں دونوں کو داخل کروایا لیکن اس کا مستقل حل منشیات فروشوں کا خاتمہ ہے تب یہ مسئلہ حل ہوگا”۔

خیبرپختونخوا میں خواتین کیلئے مخصوص بحالی کا مرکز کیوں موجود نہیں؟ اس سوال کے جواب پر ڈسٹرکٹ افسر کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے حکومت خواتین کے لیے ایک مخصوص مرکز بنانے پر غور کر رہی ہے لیکن فی الحال وہ خواتین کو سرکاری اور غیرسرکاری اداروں میں مخصوص جگہوں پر رکھتے ہیں۔
یونس افریدی نے کہا کہ اس وقت یہ نہیں معلوم کہ خیبرپختونخوا میں کتنی خواتین نشے کی مرض میں مبتلا ہیں لیکن میڈیا پر آنے والے خبروں کے ذریعے انکی بحالی کے لئے فوری اقدامات اُٹھائے جاتے ہیں۔

منشیات کی روک تھام میں اداروں کا کردار؟
ضلع چارسدہ کے ایک ذمہ دار پولیس افسر نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ چارسدہ میں منشیات کے استعمال اور فروخت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے مگر اس کی سب سے بڑی وجہ پولیس کی ناقص تفتیش ہے۔
پولیس افسر نے بتایا کہ پولیس اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ملزمان کو پکڑ لیتے ہیں مگر عدالتیں انہیں آسانی سے چھوڑ دیتی ہیں۔ جب عدالتوں سے مسلسل رہائی شروع ہوئی تو انہوں نے رہائی پانے والے ملزمان کی مثلز کا جائزہ لیا جہاں پر سقم تھا اس پر قابو پا بھی لیا گیا مگر پھر چھوٹ جاتے ہیں۔
انکا کہنا ہے "منشیات کے مقدمات میں ‘ا’ سے ‘ی’ اکھٹا کرنا پولیس کیلئے انتہائی مشکل کام ہے لیکن اس حقیقت کو بھی ہم نظرانداز نہیں کر سکتے کہ کئی مقدمات میں ہمیں کامیابی ملی ہے اور سزائیں بھی ہوچکی ہیں”۔
خیبرپختونخوا کی رائیٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2014 کے تحت جب ضلعی پولیس سے پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت گزشتہ چھ ماہ کے دوران چرس، ہیروین، افیون، آئس اور شراب کے کُل 337 مقدمات درج ہوچکے ہیں جن میں 401 ملزمان گرفتار کئے گئے ہیں۔
آر ٹی آئی معلومات کے تحت ان میں 337 مقدمات میں صرف ایک مجرم کو قید اور 1 کو جرمانہ ہوا ہے جبکہ باقیوں کی ٹرائیل جاری ہے۔ پولیس کے مطابق ضلع بھر میں سابق قبائلی ضلع مہمند کے پڑانگ غار اور ضلع خیبر کے علاقہ شاکس، درہ آدم خیل، باڑہ اور کارخانوں مارکیٹ سے سپلائی کیا جاتا ہے۔
چارسدہ پولیس کے ترجمان صفی جان کے مطابق منشیات کی روک تھام کیلئے آئی جی کی ہدایات پر 45 رُکنی ٹیم تشکیل دی گئی ہے جن کی سربراہی ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر کر رہے ہیں۔
انکے مطابق یہی کمیٹی تعلیمی اداروں، مساجد، گاؤں اور بازاروں میں جا کر منشیات کے خلاف شعور اجاگر کرنے کیلئے اقدامات اُٹھا رہے ہیں۔

ماہرین نفسیات منشیات کے عادی افراد کی بحالی کیلئے کونسے طریقے اختیار کرتے ہیں؟

ضلع چارسدہ لائف ویز ری ہیب سنٹر کے ڈاکٹر ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ منشیات کی لت پڑ جانا انسان کو تاریکیوں میں دھکیل دیتا ہے جس کے بغیر عادی شخص کی زندگی مشکلات کا شکار ہوجاتی ہے۔
ڈاکٹر ثناء اللہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں منشیات کی مقدار زیادہ ہے جبکہ اس کی قیمت بھی کم ہے۔ انہوں نے منشیات کی لت پڑ جانے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا کہ سماجی رویوں میں تیزی سے تبدیلی کی وجہ سے نوجوان منشیات کا سہارا لیتے ہیں۔ روزگار کے مواقع کم ہوتے ہیں، والدین کی طرف سے بچوں کو نظرانداز کیا جاتا ہے اور ان کے تعلیم میں عدم دلچسپی رکھنا جیسے وجوہات شامل ہیں۔
کہتے ہیں کہ منیشات کے استعمال کے بڑھتے ہوئے رجحان کی وجوہات یہ بھی ہے کہ ضلع بھر میں منشیات کی اڈوں کی موجودگی اورمعاشرے میں اثررسوخ رکھنے والے افراد کی خاموشی ہے۔
ڈاکٹر ثناء اللہ کہتے ہیں کہ انکے مشاہدے کے مطابق ضلع چارسدہ میں آئس کے نشے میں مبتلا افراد میں اضافہ ہوا ہے اور آئس ایک ایسا نشہ ہے جس کے ایک بار استعمال سے دوسری بار اس کا مزہ اتنا نہیں ہوتا جس کے لئے انسان کو دوبارہ زیادہ مقدار میں آئس لینی پڑتی ہے اور اس طرح انسان منشیات کا عادی بن جاتا ہے۔
ڈاکٹر ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ وہ اپنے مریضوں کا علاج نہ صرف ادویات سے کرتے ہیں بلکہ انکی سوچ اور فکر میں تلقین کے ذریعے تبدیلی لانے کی کوشش کرتے ہیں اور اسکا دورانیہ تین ماہ تک ہوتا ہے۔
انکے مطابق ادویات کی استعمال اور کونسلنگ سے وہ اپنی پرانی زندگی بھول جاتے ہیں لیکن یہاں پر ایک مسئلہ ہے کہ جب وہ دوبارہ گھر یا گاؤں جا کر نارمل زندگی گزارنے لگتے ہیں تو بھی لوگ انہیں نشئی کے نام سے یاد کرتے ہیں تو پھر وہ اس ماحول کا شکار ہوجاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہاں پر خاندان کے افراد پر زمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے بحال شدہ شخص کیلئے روزگار اور دیگر مصروفیات کے مواقع فراہم کرے تاکہ وہ دوبارہ اسی طرف نہ چلا جائے۔

نشہ روکنے کیلئے صوبائی حکومت کا قانون

خیبرپختونخوا کے قانون ‘خیبرپختونخوا نارکوٹیکس کنٹرول ایکٹ 2019’ کے تحت منشیات کی سمگلنگ میں ملوث افراد کیلئے سزائے موت اور عمرقید کی سزا تجویز کی گئی ہے مگر اس میں آئس جیسے مہلک نشے کیلئے کوئی سزا موجود نہیں تھی۔
خیبرپختونخوا حکومت نے 2020 میں اس قانون میں ترمیم کرکے آئس جیسے مہلک مواد فروخت یا استعمال کرنے والے افراد کیلئے سزا اور جرمانہ مقرر کیا۔
اس قانون کے تحت آئس کے نشے کے سپلائی کرنے والوں کو سزائے موت اور استعمال پر سات سال قید کی سزا مقرر کردی جبکہ منشیات کی رقم سے جائیدادیں اور دیگر اثاثہ جات بنانے پر عمر قید کی سزا ہوگی۔

پاکستان میں منشیات سے متاثرہ افراد کی تعداد؟

پاکستان میں منشیات سے متاثرہ افراد ڈیٹا کے حوالے سے کوئی مصدقہ معلومات موجود نہیں مگر امریکی رسالے ‘فارن پالیسی’ کی امسال جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 80 لاکھ کے قریب منشیات کے استعمال میں ملوث ہیں جن میں ہر دن سات سو افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اموات کی شرح دہشتگردی میں روزانہ کے حساب سے زیادہ ہے لیکن ان میں ان لوگوں کا ذکر نہیں کیا گیا ہے جو شراب کا استعمال کرتے ہیں۔
پاکستان کے ادارہ شماریات کے مطابق ملک بھر میں 2013 کے دوران منشیات کے عادی افراد کی تعداد ستاسٹھ لاکھ بتائی گئی ہے جن میں زیادہ تر کا تعلق خیبرپختونخوا سے ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button