”لیڈی ریڈنگ ہسپتال کو سٹروک یونٹ کی سخت ضرورت ہے کیونکہ یہ صوبے کا سب سے بڑا ہسپتال ہے”
رانی عندلیب
یہ تصور کہ فالج یا سٹروک بڑھاپے میں ہی لوگوں کو اپنا شکار بناتا ہے غلط ہے، ایسا بالکل نہیں! درحقیقت فالج کسی بھی عمر کے فرد کو ہدف بنا سکتا ہے جس کی وجہ آج کی طرز زندگی ہے جو فشار خون کو بڑھا کر اس جان لیوا مرض کا خطرہ بڑھا دیتا ہے اور ہر سال 55 فیصد لوگ صرف اسی اک عارضہ کے باعث لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔
تاہم اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر علی حیدر کے مطابق صحت مند طرز زندگی سے فالج کے خطرے کو اسی فیصد کم کیا جا سکتا ہے۔ پشاور شہر کے گل کریم کو 62 سال کی عمر میں فالج اٹیک کا سامنا ہوا لیکن انہیں زیادہ نقصان نہیں پہنچا جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ گل کریم روزانہ واک کرتے تھے، ایک ماہ کے اندر اندر وہ صحت یاب ہو گئے ہیں لیکن کافی کمزور ہو گئے ہیں۔
پشاور کے سب سے بڑے ہسپتال لیڈی ریڈنگ سے وابستہ نیورو سرجن، اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر علی حیدر کے مطابق فالج کا حملہ اس وقت ہوتا ہے جب دماغ کو خون پہنچانے والی شریان میں خون اور آکسیجن بلاک ہو جائے (ischemic stroke) یا پھٹ جائے (برین ہیمرج)۔
ٹی این ای کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اس کو معمولی بیماری نا سمجھا جائے، ”فالج ایک ایسا مرض ہے جو صرف جسم کے کسی حصے کو مفلوج نہیں کرتا بلکہ موت کا باعث بھی بن سکتا ہے۔”
اس خطرناک بیماری کے تدارک کے حوالے سے ڈاکٹر علی حیدر نے بتایا کہ ورزش فالج کے خطرے کو کم کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے، ایک حالیہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ متعدل سے سخت ورزش جیسے جاگنگ یا سائیکلنگ سے خاموش فالج کا خطرہ کم ہوتا ہے جو یادداشت کے مسائل کا باعث بنتا ہے، اسی طرح ایک اور تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ صحت مند طرز زندگی جیسے تمباکو نوشی سے گریز، روزانہ ورزش، جسمانی وزن معمول پر رکھنا اور الکوحل سے دوری فالج کا خطرہ 80 فیصد تک کم کر سکتا ہے۔
پشاور شہر کی زرمینہ بی بی کو بھی دو سال قبل فالج کا اٹیک ہوا جس کی وجہ سے چلنے پھرنے کے ساتھ ساتھ انہیں بولنے میں بھی کافی دشواری کا سامنا ہے۔ ان کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ جب ان پر فالج کا حملہ ہوا تو ان کو کوئی سمجھ نہیں آئی تھی کہ کیا ہوا ہے، جب ڈاکٹر کے پاس لے کر گئے تو کافی دیر ہو چکی تھی۔
فالج یا سٹروک کی علامات
ڈاکٹر علی حیدر نے اس حوالے سے بتایا کہ فالج کی علامات میں شدید سردرد، سر چکرانا، بینائی میں تبدیلی یا دھندلاہٹ، بولنے میں مشکلات، جسم میں سنسنی کی لہر دوڑنا وغیرہ شامل ہیں، تاہم چلتے چلتے اچانک گر جانا یا گردن میں درد بھی اس کی ایک نشانی ہو سکتی ہے، ان علامات میں سے کسی کی ایک کی صورت میں طبی ماہرین سے رجوع کرنا ضروری ہے چاہے وہ بعد میں عام بیماری ہی کیوں نہ ثابت ہو۔
تاہم طرز زندگی میں کچھ تبدیلیاں لا کر فالج کے خطرے کو کافی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔
فالج ایک ایسی بیماری ہے جس میں جسم کا کوئی بھی حصّہ اچانک کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ اس مرض کا تعلق خون کے گاڑھے پَن یا جمنے سے ہے۔ طبّی تحقیق سے ثابت ہے کہ اگر مریض کو فوری طور پر ہسپتال لے جائیں اور طبّی امداد فراہم کی جائے تو ہلاکت اور معذوری سے محفوظ رہنے کے امکانات خاصے بڑھ جاتے ہیں۔ اسی لیے ورلڈ سٹروک آرگنائزیشن کے زیرِ اہتمام ہر سال دُنیا بَھر میں 29 اکتوبر کو ’’عالمی یومِ فالج‘‘ منایا جاتا ہے۔ اس دِن کے لیے اِمسال کا تھیم "Minutes Can Save Lives” تھا۔
اس کے علاوہ بعض فالج کے ماہرین جیسے ڈاکٹر شاہد محمود کا یہ بھی کہنا ہے کہ ڈپریشن ایسی چیز ہے جو فالج کے خطرے پر اثرانداز ہوتی ہے، ایک حالیہ تحقیق کے مطابق ڈپریشن کے شکار افراد میں فالج کا خطرہ 45 فیصد اور اس کے نتیجے میں موت کا امکان 55 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔
فالج کی بیماری میں پچھلے چند برس کی نسبت 20 فیصد اضافہ ہوا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ پرہیز نہ کرنا،
روغن غذاؤں اور مصالحے دار کھانوں کی زیادتی ہے۔ اس کے علاوہ مایوسی کے شکار افراد عام طور پر تمباکو نوشی زیادہ کرنے لگتے ہیں، ناقص غذا کا استعمال اور جسمانی سرگرمیوں سے دوری اختیار کر لیتے ہیں اور یہ سب فالج کے خطرے کا باعث بننے والے عوامل ہیں۔
ایک تحقیق کے مطابق معمولی ذہنی پریشانی اور مایوسی بھی خون کی شریانوں سے متعلق امراض سے موت کا خطرہ بڑھا دیتے ہیں۔ موٹاپا متعدد امراض کی جڑ ثابت ہوتا ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر کا خطرہ بڑھتا ہے اور یہ دونوں ہی فالج کا باعث بننے والے اہم عوامل ہیں، جسمانی وزن میں 4 کلو تک کمی لانا بھی اس خطرے کو کافی حد تک کم کر دیتا ہے۔
کولیسٹرول کو کنٹرول کرنا
صحت کے لیے نقصان دہ ایل ڈی ایل کولیسٹرول کی سطح میں اضافہ جبکہ فائدہ مند ایچ ڈی ایل کولیسٹرول کی سطح میں کمی شریانوں میں مواد جمنے کا امکان بڑھاتا ہے، جس سے دوران خون محدود ہوتا ہے جو کہ فالج کا باعث بنتا ہے۔ سچورٹیڈ اور ٹرانس فیٹ کو غذا سے نکالنا نقصان دہ کولیسٹرول کی سطح کم کرتا ہے جبکہ فائدہ مند کولیسٹرول کی سطح بڑھتی ہے، اس حوالے سے ڈاکٹر کی تجویز کردہ ادویات کا استعمال بھی فائدہ مند ہوتا ہے۔
دل کی دھڑکن پر نظر رکھیں
دل کی دھڑکن میں بے ترتیبی سے فالج کا خطرہ 5 گنا بڑھ جاتا ہے، اگر آپ دل کی دھڑکن کو بہت تیز یا بے ترتیب محسوس کریں تو ڈاکٹر سے رجوع کر کے اس کی وجہ ضرور جاننے کی کوشش کریں۔ اگر یہ Atrial fibrillation کا عارضہ ہوا تو اس کا علاج ادویات سے ممکن ہے جو دل کی دھڑکن کی رفتار کم کر کے بلڈ کلاٹ کا خطرہ کم کر دیتی ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق فالج جان لیوا امراض میں تیسرے نمبر پر ہے اور بدقسمتی سے اکثر اس کے دورے کا اندازہ تاخیر سے ہوتا ہے۔ فالج ایک ایسا مرض ہے جس میں دماغ کو نقصان پہنچتا ہے اور جسم کا کوئی حصہ مفلوج ہو جاتا ہے، لیکن اگر مناسب علاج بروقت مل جائے تو اس کے اثرات کو کم سے کم کیا جا سکتا ہے تاہم اکثر لوگ اس جان لیوا مرض کی علامات کو دیگر طبی مسائل سمجھ لیتے ہیں اور علاج میں تاخیر ہو جاتی ہے۔
فالج کے دورے کے بعد ہر گزرتے منٹ میں آپ کا دماغ 19 لاکھ خلیات سے محروم ہو رہا ہوتا ہے اور ایک گھنٹے تک علاج کی سہولت میسر نہ آپانے کی صورت میں دماغی عمر میں ساڑھے تین سال کا اضافہ ہوجاتا ہے۔ علاج ملنے میں جتنی تاخیر ہوگی اتنا ہی بولنے میں مشکلات، یادداشت سے محرومی اور رویے میں تبدیلی جیسے مسائل کا خطرہ بڑھ جائے گا۔
فالج کو جتنا جلد تشخیص کرلیا جائے، اتنا ہی اس کا علاج زیادہ موثر طریقے سے ہوپاتا ہے اور دماغ کو ہونے والا نقصان اتنا ہی کم ہوتا ہے.
ڈاکٹر شہد محمود کا مزید کہنا تھا کہ فالج کے مریض کافی تعداد میں موجود ہیں لیکن میڈیکل وارڈ میں 100 فیصد میں 10 فیصد مریض فالج کے ہوتے ہیں، علاج اس کا بہت مشکل ہے کیونکہ اس میں سٹی سکین کرنا ہوتا ہے، ایم آر آئی اور سی ٹی اے کرنا ہوتا ہے، سرجری کرنا ہو تو کلپنگ وغیرہ ضروری ہوتی ہے، بعض اوقات ایک ہاتھ پاؤں سے بندہ معذور ہو جاتا ہے تو وہ ساری عمر دوائیاں کھاتا رہتا ہے، اس کی فزیوتھراپی کراتے ہیں تو یہ تمام انتظامات کرنے ہوتے ہیں جو کہ ایک عام غریب آدمی کے بس کی بات نہیں، اس پر بہت زیادہ خرچا ہوتا ہے، گورنمنٹ وارڈ میں یہ تمام انتظامات تو موجود ہوتے ہیں، لیکن الگ سٹروک یونٹ موجود نہیں ہے، ”لیڈی ریڈنگ ہسپتال کو سٹروک یونٹ کی سخت ضرورت ہے کیونکہ یہ صوبے کا سب سے بڑا ہسپتال ہے لیکن یہاں سٹروک یونٹ موجود نہیں ہے۔”
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال ساڑھے تین لاکھ سے زائد لوگ فالج کا شکار ہوتے ہیں۔ ان میں سے تقریباً ستر فیصد سے زیادہ لوگ فالج کی وجہ سے مستقل طور پر معذور بن جاتے ہیں۔ ایک اور اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریباً دس لاکھ لوگ فالج کے باعث کسی نہ کسی حوالے سے معذوری کا شکار ہیں۔ اسی طرح دس سے بیس فیصد لوگ فالج کے حملے کی وجہ سے موت کے منہ میں بھی چلے جاتے ہیں۔
فالج ایک اور حوالے سے بھی ایک منفرد اور پیچیدہ بیماری ہے کہ یہ ایک جانب تو خود مریض کے لیے تکلیف کا باعث ہوتی ہی ہے تو دوسری طرف مریض کی دیکھ بھال اور نگہداشت کا طویل اور صبر آزما مرحلہ بھی گھر والوں کو درپیش ہوتا ہے۔ اس بناء پر مریض کے ساتھ ساتھ اس کے گھر والے بھی سخت پریشانی میں مبتلا ہوتے ہیں۔