خسرہ اور روبیلا سے بچوں میں اندھا پن اور معذوری جیسے واقعات رونما ہوسکتے ہیں: ماہرین
خیبرپختوںخوا میں جیسے ہی بچوں کو کورونا سے بچاؤ کے ٹیکے لگانا شروع ہوئے تو اچانک خسرہ اور روبیلا کی وبا پھوٹ پڑی جس کی وجہ سے صوبے بھر میں سینکڑوں بچے متاثر ہوئے تو محکمہ صحت نے انکو ان امراض سے بچانے کیلئے کورونا ویکسینیشن کی عمل کو روک کر خسرہ اور روبیلا کے ٹیکے لگانا کا عمل شروع کردیا تھا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ خسرہ اور روبیلا خطرناک امراض ہیں جس سے بچوں میں اندھا پن، معذوری اور اموات جیسے واقعات رونما ہوسکتے ہیں۔
اس حوالے سے محکمہ صحت خیبرپختونخوا نے پانچ ماہ سے پندرہ سال تک عمر کے بچوں کو ویکسین لگانے کا عمل شروع کیا تھا جس کے لئے قبائلی اضلاع میں بھی مہم چلائی گئی تھی۔
جنوبی وزیرستان کے ویکیسنیشن ٹیم کے سربراہ خوشدل خان کا کہنا ہے کہ ہم نے ضلع سوتھ وزیرستان میں کل 253 ٹیمیں تشکیل دی تھی اور اس میں 81 ہزار بچوں کو خسرہ اور روبیلا سے بچاو کی ویکسین لگائی گئی ہیں۔
خوشدل خان کے مطابق اس سے پہلے پولیو کا مہم چلا رہے تھے پھر کورونا ویکسین کی وبا پھیل گئی لیکن ضلعی کی تعاؤن سے اب خسرہ اور روبیلا کی مہم بی کامیابی سے چلائی گئی ہے۔
ایک سوال کہ ملک میں کورونا وائرس او دیگر وباوں کا سلسلہ جاری ہے ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرے وبا سے عوام متاثر ہورہے ہیں جس میں محکمہ صحت کے اہلکار اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں تو کیا اس نئے ویکیسینیشن مہم میں آپ کی اجرت میں اضافہ ہوتا ہے؟ تو خوشدل خان نے بتایا کہ محکمہ صحت کی جانب سے اس مہم چلانے والوں کو اسکے اضافے پیسے نہیں ملتے اگر کام زیادہ بھی ہوجائے تو بھی وہی پیسوں پر کام کرتے ہیں جس پر پہلے بھی کرتے تھے۔
خیبرپختونخوا اور بالخصوص قبائلی اضلاع میں پولیو مہم کے دوران اکثر پولیو ٹیمز پر قاتلانہ حملے ہوچکے ہیں جن میں صحت کے عملے سمیت پولیس اہلکار جانبحق ہوئے ہیں تو اس پر خوشدل خان نے کہا کہ بظاہر ان کے لئے سیکورٹی کے انتظامات کئے گئے جس پر ہمیں اطمینان ہے کیونکہ تشکیل دی جانے والے ہر ٹیم کے ساتھ ایک یا دو سیکورٹی اہلکار موجود ہوتے ہیں۔
جنوبی وزیرستان میں ایک لیڈی ہیلتھ ورکر عائشہ علی بھی بچوں کو روبیلا اور خسرہ کے خلاف ویکسین کے مہم میں شامل تھی، مہم کے دوران اپنی درپیش چیلنجز کے بارے میں کہتے ہیں کہ انہوں نے پولیو اور کورونا میں کام کرچکی ہے، انہوں نے دیکھا ہے کہ اکثر دیہاتی علاقوں میں خواتین ویکسین لگانے سے انکار کرتی تھی لیکن ضلعی انتظامیہ کی مذاکرات اورآگاہی مہم پر خواتین نے انجکشن لگانا شروع کر دئے۔
کہتی ہے کہ مہم کے آغاز کے دوران کافی افواہیں پھیلی ہوئی تھیں کہ "ویکسین لگانے کے دو سال بعد انسان مر جاتا ہے” اور یہ ویکیسین مہم کے دوران ایک بڑا چیلنج تھا لیکن ضلعی انتظامیہ اور محکمہ صحت کی طرف سے آگاہی مہم بھی چلانا شروع ہوا اور عوام کو ویکسین کی طرف راغب کیلئے سوشل میڈیا، میڈیا اور پبلک مقامات پر پوسٹرز لگانے کا سہارا بھی لیا گیا۔
ڈائریکٹریٹ آف ہیلتھ خیبرپختونخوا کے ترجمان اسد ضیاء کا کہنا ہے کہ روبیلا اور خسرہ مہم سے پہلے محکمہ صحت نے عوام میں شعور اجاگر کرنے کیلئے ایک مہم چلائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس میں ٹی وی، ریڈیو، سوشل میڈیا اور اپنے سوشل موبلائزر کے ذریعے عوام تک پیغام پہنچایا کہ ویکسینیشن انکی محفوظ مستقبل کا ضامن ہے۔
انہوں نے کہا کہ صوبہ بھر میں روبیلا اور خسرہ سے بچاؤ کی مہم پندرہ سے 27 نومبر تک جاری رہی جس میں پانچ ماہ سے پندرہ سال کے عمر کے بچوں کو ویکسین لگائے گئے ہیں۔ اسکے لئے تشکیل ہونے ٹیمز میں دو افراد بطور سوشل موبلائزر کام کرتے ہیں جن کا کام والدین کی جانب سے شکوک و شبہات دور کرنا اور ویکسین کی طرف راغب کرنا ہوتا ہے۔
اسد ضیاء کہتے ہیں کہ محکمہ صحت کی جانب سے جب کوئی بھی ویکیسینیشن ٹیم کسی علاقے یا گاؤں میں جاتی ہے تو وہاں کے مساجد میں اعلانات کروائے جاتے ہیں کہ فلاں جگہ پر ویکیسینیشن کی ٹیم آئی ہوئی جہاں پر آپ اپنے بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگا سکتے ہیں تو اسی طریقے سے مقامی آبادی میں رہائش پذیر عوام کو فوری طور پر خبرمل جاتی ہے۔
انہوں نے ایک سوال کہ پوسٹرز اور بینرز کے ذریعے آپ عوام کو کیسے آگاہ کرتے ہیں؟ تو جواب میں بتایا کہ مہم شروع ہونے سے پہلے یہ لازمی بنایا گیا تھا جس میں عوامی مقامات مثلاً بس سٹینڈز، شہر کے مختلف چوراہیں، بنیادی صحت مراکز اور گلی کوچے شامل ہیں۔ انکے مطابق اس میں نہ صرف پوسٹرز اور بینرز شامل ہیں بلکہ اردو زبان میں کتابچے اور بل بورڈز پر فلیکس بھی لگا شامل ہیں۔
اسد ضیاء نے خواتین کی آگاہی مہم پر بتایا کہ انکے تشکیل کردہ ٹیمز میں دو خواتین موبلائزرز بھی شامل ہوتے ہیں جو گھر گھر جا کر خواتین کو ویکسین کے فوائد اور بیماریوں کے خطرناک نتائج کے بارے میں بتاتے ہیں جس پر خواتین اپنے بچوں کو ویکسین لگانے کیلئے راضی ہوتے ہیں۔
انہوں نے اپنی آگاہی پیغامات کے حوالے سے بتایا کہ ان تمام تشہیری عمل میں ماہر ڈاکٹرز کے پیغامات شامل ہوتے ہیں جو تحقیق اور منتخب علاقے کے زبان کی بنیاد پر ہوتے ہیں تاکہ عوام کو منطق اور دلیل سے آسانی سے سمجھ آسکیں۔
خیبرپختونخوا کے ای پی آئی ڈاکٹر عارف کا کہنا ہے کہ جس طرح خسرہ کی وبا بچے کے صحت کو متاثرہ کرتا ہے اسی طرح روبیلا کے بھی صحت پر خطرناک نتائج مرتب ہوتے ہیں۔
انہوں نے بچوں کے صحت پر روبیلا کے اثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ براہ راست حاملہ خاتون کے پیٹ میں بچے کو متاثر کرتے ہیں جس سے بچہ اندھا، معذور، دماغی طورپر متاثر يا مرا ہوا ہوتا ہے لیکن روبیلا اور خسرہ کی ویکسین کو ملاکر ویکسین اس سے بچاؤ میں ممکن ہوسکتا ہے۔
ڈاکٹر افتخار کا کہنا ہے کہ خیبرپختونخوا میں تقریباً اس وقت ساڑھے چار ہزار کے قریب کیسیز رپورٹ ہوا ہے لیکن ان میں سے زیادہ تر کیسیز رپورٹ نہیں ہوا ہے، انکے مطابق اگر یہ کیس پراپر طریقے سے رپورٹ ہوجائے تو یہ 12 ہزار سے تجاوز کر جاتے ہیں۔
ڈاکٹر افتخار کا کہنا ہے کہ انکے دفتر میں نگرانی کا ایک نظام ہے جو ہمیں مختلف علاقوں سے وبا کے بارے میں اشارے دے رہے ہیں جس کی بنیاد پر ہم متعلقہ صحت کے ادارے کو فوری اقدامات اُٹھانے کے ہدایات دے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بیک وقت بچوں کو دو قسم کے ویکسین نہیں لگائے جاسکتے ہیں جس کی وجہ سے انکی صحت متاثر ہونے کا خدشہ ہوسکتا ہے تو اس وجہ سے ہم نے کورونا ویکسین کا عمل روک بچوں کو خسرہ اور روبیلا ویکسین لگانے پر کام شروع کیا۔
اس سٹوری کے لیے آمنہ استمراج، بخت محمد اور عابداقبال نے معلومات فراہم کی ہے۔