جب ایتھنز اور سپارٹا کی حکومتوں کو اجازت تھی کہ وہاں رہنے والے تمام معذوروں کو قتل کر دیا جائے!
ماں جی اللہ والے
مشہور فلسفی افلاطون کا کہنا تھا کہ ”ذہنی و جسمانی طور پر معذور مرد اور عورت معاشرے پر بوجھ اور جمہوریت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔” قدیم یونانی شہروں ”اسپارٹا” اور ”ایتھنز” میں قبل مسیح دور کے قانون ساز اور سیاست دان ”لائکرگس” (LYCURGUS) اور ”سولن” (SOLON) نے اپنی حکومتوں کو اس بات کی اجازت دے دی تھی کہ وہاں رہنے والے تمام معذوروں کو قتل کر دیا جائے، اس حوالے سے قانون سازی کرتے ہوئے ان کا موقف تھا کہ معذور افراد معاشرے کے کسی کام نہیں آ سکتے اور نہ ہی جنگ لڑ سکتے ہیں۔ اس دور میں یہ تصورات بھی پائے جاتے تھے کہ معذور افراد پر بھوت، پریت یا چڑیلیں قابض ہوتی ہیں جبکہ مغرب میں ایک طویل عرصہ تک معذوروں کو اچھوت شمار کیا جاتا رہا۔ مشہور برطانوی فلسفی ہربرٹ اسپنسر (1903-1820ئ) نے اپنی حکومت پر زور دیا کہ وہ معذوروں کی بحالی کے لئے رقم خرچ نہ کرے کیونکہ وہ حکومت کا کوئی کام نہیں کر سکتے۔
دین اسلام کے ظہور سے قبل عرب میں معذوروں کے ساتھ بہت برا سلوک کیا جاتا تھا۔ عرب کے مشہور قبیلہ قریش اور مکہ کے معزز سردار معذور افراد کو منحوس اور قابل نفرت سمجھتے تھے یہاں تک کہ وہ معذو افراد کے ساتھ کھانا تک نہیں کھاتے تھے یہی وجہ تھی کہ دنیا بھر کے معذور افراد تنہائی، مایوسی اور بے چارگی کی زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ دین اسلام کی آمد کے بعد معذوروں کے ساتھ ہونے والے امتیازی اور غیرانسانی سلوک کا خاتمہ ہوا۔ اسلام نے معذوروں کے حقوق اور ان کی عزت نفس کو مجروع نہ کرنے سے متعلق رہنمائی فراہم کی اور قبل مسیح دور سے چلی آ رہی جاہلانہ رسموں کا قلع قمع کیا جس کے تحت اندھے، بیمار اور جسمانی طور پر معذور افراد جو جنگ میں شریک نہیں ہو سکتے تھے، انہیں قریبی رشتہ داروں کے گھروں سے کھانا کھانے کی اجازت دی گئی۔ اس دور میں ماں باپ، بہن بھائی پیٹ بھر کر کھانا کھانے کی خاطر گھر کے معذور افراد کو رشتہ داروں کے گھر چھوڑ آیا کرتے تھے تاکہ وہ وہاں سے روکھی سوکھی روٹی کھا لیں۔ بعض لوگ اندھے اور ہاتھ پاؤں سے معذور افراد کو حقیر سمجھ کر انہیںا لگ تھلگ بٹھا کر کھانا دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام پاک کے ذریعے معذور افراد کو تنہا کرنے کی کراہت کو ختم کرتے ہوئے اپنے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وساطت سے سب کو اکٹھے کھانا کھانے کی ترغیب دی۔
حضرت سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن مسیب سے مروی ہے کہ صحابہ کرام جب نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جہاد کے لئے جاتے تو اپنے مکانات کی چابیاں ان نابینا، بیمار اور اپاہجوں کو دے جاتے جو اپنی معذوری کے باعث جہاد میں نہیں جا سکتے تھے اور انہیں اس بات کی بھی اجازت دیتے کہ وہ ان کے گھروں سے کھانے پینے کی چیزیں لے کر کھا لیں۔آپۖ کی معذوروں کے ساتھ حسن سلوک کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نابینا صحابی (حضرت ابن ابی مکتوم) کو نہ صرف موذن مقرر کیا بلکہ اپنا نائب بھی بنایا۔ جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم معذوروں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتے تھے اسی طرح صحابہ کرام بھی معذوروں کا خیال رکھتے تھے۔ مدینہ کے اطراف میں ایک نابینا بڑھیا تھی، حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ روزانہ صبح سویرے نابینا بڑھیا کے جھونپڑے میں تشریف لے جاتے اور اس کے لیے پانی اور دیگر ضروری خدمات انجام دیتے تھے۔ کچھ عرصے بعد آپ نے محسوس کیا کہ کوئی شخص ان سے پہلے آ کر بڑھیا کے وہ سارے کام کر جاتا ہے جو وہ کرتے تھے۔ اسی بات کو جاننے کے لئے ایک روز آپ رات کے آخری پہر وہاں تشریف لے گئے تاکہ یہ جان سکیں کہ کون ان سے پہلے جا کر بڑھیا کے کام کر دیتا ہے۔ آپ نے دیکھا خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اِس ضعیفہ کی خدمت گذاری سے فارغ ہو کر اس کے جھونپڑے سے نکل رہے تھے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں اِس بات کا سختی سے اہتمام کر رکھا تھا کہ کوئی بھی شخص فقر و فاقہ میں مبتلا نہ ہو یہاں تک کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حکم نامہ جاری کر رکھا تھا کہ ہر مفلوج اور اپاہج فرد کو بیت المال سے ماہانہ وظیفہ دیا جائے۔ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ لوگوں کو کھانا کھلا رہے تھے کہ ایک ایسے شخص کو دیکھا جو بائیں ہاتھ سے کھانا کھا رہا تھا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ”اے بندہ خدا، دائیں ہاتھ سے کھانا کھا۔” اُس شخص نے جواب دیا کہ وہ مشغول (مصروف) ہے۔ آپ یہ سن کر آگے بڑھ گئے جب آپ دوبارہ اس شخص کے پاس سے گزرے تو پھر وہی فرمایا۔ اُس شخص نے پھر وہی جواب دیا۔ جب تیسری بار آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اُس کو ٹوکا تو اُس نے بتایا کہ ”موتہ کی لڑائی میں میرا دایاں ہاتھ کٹ گیا تھا۔” یہ سن کر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رونے لگے اور پاس بیٹھ کر اُس سے پوچھنے لگے کہ تمہارے کپڑے کون دھوتا ہے اور تمہاری دیگر ضروریات کیسے پوری ہوتی ہیں؟ تفصیلات معلوم ہونے پر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے لیے ایک ملازم لگوا دیا اور اسے ایک سواری دلوائی اور دیگر ضروریاتِ زندگی بھی دِلوائیں۔ (کتاب الآثار، ابو یوسف 1: 208)
ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کسی مقام سے گذر ہوا تو دیکھا کہ ایک ایسا بوڑھا سائل بھیک مانگ رہا تھا جس کی بصارت زائل ہو چکی تھی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سے پوچھا ”تم اہلِ کتاب کے کس گروہ سے ہو؟” اُس نے بتایا ”یہودی” آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سے پوچھا ”تمہیں کس چیز نے بھیک مانگنے پر مجبور کیا ہے؟” اُس نے جواب دیا ”میں اپنے بڑھاپے، ضرورت مندی اور جزیہ کی وجہ سے بھیک مانگ رہا ہوں۔” حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اُس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لے گئے اور گھر میں سے اُسے کچھ لا کر دیا پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیت المال کے نگران کو بلایا اور اہل کتاب سے تعلق رکھنے والے معذور بوڑھوں کا جذیہ معاف کرنے کے احکامات جاری کر دیئے۔ (ابو یوسف، کتاب الخراج:136)۔
معذور افراد کے ساتھ حسن سلوک کا جو سبق آج دنیا کو دیا جا رہا ہے وہ ہمارے پیارے نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بہت پہلے سے عالم اسلام کو دے چکے ہیں۔ اسلامی تعلیمات ہمیں اس بات کا درس دیتی ہیں کہ ہم معاشرے میں رہنے والے معذور افرادکے ساتھ نارمل انسانوں کی طرح بلکہ ان سے بھی بڑھ کر حسن سلوک کے ساتھ پیش آئیں۔