انور زیب
ویسے بیٹھے بیٹھے خیال آیا کہ قلعہ اسلام پاکستان میں قتل کی سزا پھانسی ہے لیکن زندگی میں کبھی بھی کسی ایسے شخص کا جنازہ نہیں پڑا جس کو پھانسی ہوئی ہو، مطلب عدالت نے قتل کے جرم میں پھانسی دی ہو۔ ہاں ایسے جنازے بہت پڑھے ہیں جو قتل کئے گئے۔ کیا آپ نے کبھی ایسے جنازے میں شرکت کی ہے جس کو عدالت نے پھانسی پر چڑھایا ہو؟ اگر نہیں تو کیا ہم عدالتی سسٹم یا نظام انصاف کو ریویو کر سکتے ہیں۔ ایسے نظام کو لانے میں کون سی رکاوٹیں ہیں جن کی وجہ سے لوگ فیصلے خود کرنے پر مجبور ہیں؟
ایک گاؤں میں ایک نوجوان کو دو بندوں نے دن دہاڑے قتل کر دیا۔ تمام شواہد موجود تھے۔ بیان نزع میں مقتول نے خود قاتلوں کی نشاندہی کی تھی، ایف آئی آر میں نامزد دو ملزمان پکڑے گئے تاہم ملزمان بری ہوگئے۔
جس دن اس نوجوان کا قتل ہوا تو فاتحہ خوانی کے لئِے آنے والے بعض رشتہ دار ایف آئی آر درج کرنے کی مخالفت کر رہے تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ عدالتوں میں انصاف بہت زیادہ مہنگا ہے یہ ان کے بس کی بات نہیں۔ بہتر یہ ہے کہ کسی کو ایک دو لاکھ روپے دے کر قتل کا بدلہ لیا جائے اور یہ معاملہ ختم کیا جائے۔ لیکن پشتون روایات کے مطابق فیصلہ یہ ہوا کہ تمام شواہد اور گواہان موجود ہیں اس لئے بہتر یہ ہے کہ مقدمہ لڑا جائے اور قانوناً دونوں ملزمان کو سزا ہو جائے۔ ویسے بھی ملاکنڈ ڈویژن کے لوگ آئین کے تھوڑے زیادہ پاسدار ہیں۔
عدالت میں دو سال تک مقدمہ چلایا گیا، تمام شواہد، بیان نزع اور گواہان مقامی عدالت میں پیش ہوئے جس کے نتیجے میں دونوں ملزمان مجرم ثابت ہوگئے اور دونوں کو 25 ، 25 سال سزا سنائی گئی۔ ایک سال جیل میں گزارنے کے بعد ملزمان نے سزا کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر دی اور دوسری پیشی میں ہی رہا ہوگئے۔ کیونکہ اسی دوران مقتول کے والد اس دنیا سے رخصت ہو گئے تھے جو کیس کی پیروی کر رہے تھے۔ اب مقدمہ لڑنے والا کوئی اور تھا ہی نہیں اس لئے دونوں ملزمان رہا ہوگئے۔ مقتول کے دو بھائی مڈل ایسٹ میں محنت مزدوری کر رہے ہیں اور یقیناً مڈل ایسٹ سے واپسی پر پہلا کام جو وہ کریں گے وہ بھائی کا بدلہ ہو گا کیونکہ ان کو بھی اب اندازہ ہو گیا کہ جو کام لاکھ دو لاکھ میں ہو سکتا تھا اس پر عدالتوں، وکلاء اور پولیس میں دس لاکھ سے زیادہ خرچ ہوئے اور کام بھی نہ ہو سکا۔ خیبر پختونخوا میں ایسے سینکڑوں واقعات رپورٹ ہو رہے ہیں جہاں عدالت سے انصاف نہ ملنے پر ملزمان احاطہ عدالت میں ہی قتل کر دیئے جاتے ہیں۔
میرے ایک دوست کے ساتھ بھی ایسا واقعہ ہوا۔ رشتہ داروں کے ساتھ زمین کے تنازعہ پر مخالفین نے فائرنگ کرکے ایک بندے کو قتل جبکہ تین کو زخمی کر دیا۔ حسب معمول مقدمہ درج ہوا، دو ملزمان پکڑے بھی گئے باقی ابھی تک مفرور ہیں۔ زخمی پر بھی ہسپتالوں میں لاکھوں روپے خرچ ہوئے اور جو دو ملزمان اس وقت جیل میں ہیں، بیچاروں نے لاکھوں روپے پولیس اور دیگر افسران میں تقسیم کئے ہیں اس لئے دونوں ملزمان اندر ہیں ورنہ یہ بھی کب کے باہر ہوتے۔
ایک دن انصاف کے نظام سے انتہائی دلبراشتہ ہو کر میرا دوست کہنے لگا اگر ان ملزمان کی ضمانت ہو گئی تو عدالت کے اندر ان کو ختم کرنا پڑے گا کیونکہ باہر آکر یہ ہمیں مزید نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
ہمارے گاؤں کے ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ پاکستان میں عدالت کے دروازے پر دستک دینے کیلئے بینک میں بھری تجوری ہونی چاہِیے۔ جب بھی کوئی اس بزرگ شخص سے اس قسم کے معاملات میں مشورہ لینے کیلئے آتا ہے تو وہ ان کو کبھی یہ نہیں کہتے کہ عدالت جاؤ بلکہ مشورہ دیتے ہیں کہ یا تو بدلہ لو یا پھر صلح کر لو۔ عدالت والا آپشن شائد ان کی کتاب میں ہے ہی نہیں۔ بیچارے کی زمین پر کسی نے قبضہ کیا تھا، چالیس سال تک مقدمہ لڑا پھر بھی آدھی زمین دوسرے کی ہوگئی۔
پنجاب کے بارے میں تو زیادہ علم نہیں لیکن خیبر پختونخوا میں تو ہر روز قتل کے ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ شائد لوگ انصاف کے نظام سے اس قدر نالاں ہیں کہ فیصلے خود کرنے لگے ہیں۔ عدالت کے اندر، جیل کے باہر، تھانے میں مطلب کوئی ایسی جگہ ہے ہی نہیں جہاں پر قتل نہیں ہوئے ہو۔
کسی کو قتل کرنا بھی کوئی آسان کام نہیں لیکن لوگوں کو عدالت میں انصاف مانگنے سے یہ کام آسان لگنے لگا ہے۔ اس میں ججز کی اتنی مداخلت نہیں لیکن قوانین ایسے بنائے گئے ہیں کہ جن کو لاگو کرنے سے مقتول سے زیادہ مجرم کو فائدہ ہو رہا ہے۔
گزشتہ چند دنوں میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار پر دو الزامات ایسے لگے جو ہر ذی شعور انسان سچ مانتا ہے۔ ویسے بھی ثاقب نثار اپنے دور میں انصاف سے زیادہ ڈیمز بنانے کیلئے مشہور تھے آج بھی ہیں۔ لیکن اس قسم کے کاموں سے جو تھوڑے بہت لوگ عدالت جاتے ہیں وہ بھی آنے والے وقت میں نہیں جا پائیںگے۔