بلاگزصحت

”میرا 12 سالہ بیٹا افسردہ ہو کر پوچھنے لگا، پاپا کیا ھم سب مر جائیں گے؟”

نسرین جبین

”میری دس سالہ بھتیجی روتے ہوئے گھر واپس آئی اور کہنے لگی کہ محلے کا دکاندار مجھے سودا نہیں دیتا، کہتا ہے کہ تمھارے نوٹ پر کرونا کے جراثیم ہیں، میں یہ نوٹ نہیں لیتا، تمھارے گھر میں کرونا کا مریض ہے اور تم بھی یہاں سودا لینے نا آیا کرو۔ میرا 12 سالہ بیٹا افسردہ ہو کر پوچھنے لگا کہ پاپا کیا ھم سب مر جائیں گے؟ میرے پاس ان کے سوالوں کا کوئی جواب نہیں تھا۔”

یہ کہنا تھا پشاور کے سینئر صحافی شہزادہ فہد کا جو کہ کرونا کی پہلی اور دوسری لہر میں دو مرتبہ کرونا کا شکار ہوئے اور ہسپتال میں زیر علاج رہے۔ دوسری مرتبہ دماغ کے فالج تک کے مرض میں مبتلا ہو گئے تھے۔ انہوں نے مزید اپنی تلخ یادیں شیئر کرتے ہوئے کہا کہ میں تو بس یہ سوچتا رہتا تھا گھر والوں کی حفاظت کیسے کروں، ”میں کرونا پازیٹو تھا اور آئسولیشن میں تھا، فون کال پر بیوی بچوں سے بات کرتا تھا۔ خود پازیٹو ہو جانے کے بعد مجھے گھر والوں کی صحت کے ساتھ ساتھ سب سے زیادہ فکر پیسوں کی تھی، گھر والوں کے ٹیسٹ کیسے کراؤں، فی کس 7000 روپے ٹیسٹ فیس تھی، گھر کے 6 ممبران کے لیے تقریباً 50 ہزار روپے چاہیے تھے جو کوئی بھی نہیں دے رہا تھا، ہمارا ادارہ بھی نہیں کہ جس کی خدمات اور فرائض کی ادائیگی میں مجھے یہ مرض لاحق ہوا۔

جب لوگ گھروں میں تھے سب کچھ بند تھا، ورک فرام ہوم تھا اور ہم صحافی فرنٹ لائن کا کردار ادا کر تے رہے اور جن لوگوں کے لیے کر رہے تھے انہوں نے بھی اس تکلیف کے دور میں منہ موڑ رکھا تھا اور ہماری تنخواہیں بھی تو اتنی نہیں کہ مشکل وقت کے لئے بچا کر رکھ لیں، بس قرض لیا اور ٹیسٹ کروائے اور ادویات لیں۔”

سینئر صحافی شہزادہ فہد

شہزادہ فہد کی طرح پشاور کے درجنوں صحافی کورونا وباء کے دوران نہ صرف فرائض کی ادائیگی کے دوران اس کا شکار ہوئے بلکہ ان کا استحصال بھی ہوا کیونکہ ان کا کوئی پرسان حال نہ تھا۔ اپنی صحافتی ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے فرنٹ لائن سپاہی کا کردار ادا کرنے والے صحافی کورونا جیسی عالمی وباء کے دوران بھی سیفٹی اینڈ سیکیورٹی کے بغیر اپنے فرائض نبھاتے رہے اور مرض کا شکار ہونے کے بعد بھی اداروں کی طرف سے کسی بھی قسم کی مالی یا دیگر امداد اور تعاون سے محروم رہے اور اس دوران اضافی اخراجات کے باعث قرض دار بھی ہو گئے۔

آر ٹی آئی سے لی گئی معلومات کے مطابق پشاور پریس کلب اور یونین کے ممبرز صحافیوں میں سے ساٹھ صحافیوں کا کورونا ٹسٹ مثبت آیا جو کورونا کی پہلی، دوسری اور تیسری لہر کے دوران اس مرض کا شکار ہوئے جبکہ یونین نے کورونا کے مریض صحافیوں میں پانچ پانچ ہزار روپے مالی امداد تقسیم کی جبکہ ہینڈ سینیٹائزر اور ماسک بھی تقسیم کئے گئے۔

کورونا کے باعث ایک سینئر صحافی فخرالدین سید جان بحق ہوئے جن کی فیملی کو مالی امداد حکومت کی طرف سے ڈیڑھ لاکھ دی گئی اور پانچ صحافیوں کو فیڈرل یونین اور غیرملکی ادارے سے بیس، بیس ہزار ادا کیا گیا۔ پشاور پریس کلب کے پانچ سو ممبرز ہیں جبکہ خیبر یونین آف جرنلسٹس کے 530 ممبران ہیں جن میں خواتین بھی شامل ہیں تاہم خواتین صحافی کرونا کے وار سے محفوظ رہیں۔

خیبر یونین آف جرنلسٹس کے جنرل سیکرٹری محمد نعیم اور نائب صدر فہد کے مطابق کورونا سے متاثرہ صحافیوں کو یونین کی طرف سے مقامی ہوٹل میں الگ کمروں میں رکھنے اور تین وقت کے کھانے پینے کا بندوبست کرنے کا پروگرام بنایا گیا۔ پشاور میں صحافیوں کی ایک بڑی تعداد چھوٹے چھوٹے گھروں میں رہتی ہے جہاں آئسولیشن اور قرنطین ہونے کے لئے اضافی کمرے نہیں ہوتے اس لئے انہیں ہوٹلز میں رکھا جاتا تھا لیکن کسی بھی مقامی ہوٹل نے کورونا کے مریض صحافیوں کو کمرے دینے کی حامی نہیں بھری لہٰذا ہمارے اکثر صحافی اپنے ایک کمرے کے گھر میں ہی ایک طرف بیٹھ کر خود کو قرنطین کئے رہے۔

کورونا کے دوران صحافیوں کی اور خاص طور پر کورونا کا شکار صحافیوں کی مالی امداد کے اعداد و شمار مقامی اور ملکی سطح پر اس طرح رہے کہ صوبائی اور مرکزی حکومتوں نے مالی امداد کا اعلان کیا کہ مذکورہ صحافیوں کو صحت کے مسائل کے حل اور ادویات اور ٹیسٹوں وغیرہ کے لئے امداد دی جائے گی تاہم عملی طور پر ایسا نہ ہو سکا۔ مقامی سطح پر گورنر خیبر پختونخوا شاہ فرمان نے فوڈ آئٹمز پر مشتمل 50 بیگز پر مشتمل راشن کے تھیلے صحافیوں کی امداد کے لیے فراہم کیے جو کہ ضرورت سے انتہائی کم تھے۔ مذکورہ ساٹھ میں سے متاثرہ صرف پانچ صحافیوں کو بیس، بیس ہزار روپے کی مالی امداد فیڈرل یونین آف جرنلسٹس اور بین الاقوامی ادارے کی طرف سے فراہم کی گئی، باقی تمام صحافی اس مالی امداد سے محروم رہے۔ پریس کلب اور یونین کی طرف سے تمام صحافیوں کو دو، دو مرتبہ صرف ہینڈ سینیٹائزر اور ماسک دیئے گئے۔ پشاور کے تمام صحافیوں کو کورونا سے بچاؤ کی کٹ، 95 اے ماسک فراہم کرنے کی گنجائش یونین کے پاس نا تھی۔

ویڈیو جرنلسٹ رضوان شیخ

ایک بڑے نجی چینل کے سینئر کیمرہ مین رضوان شیخ کے مطابق کرونا کے دوران صحافیوں کا استحصال نا صرف میڈیا مالکان نے کیا بلکہ یونین اور پریس کلب اور حکومت کی طرف سے بھی نا تو مالی تعاون کیا گیا اور نا ہی مکمل حفاظت کے لیے سب صحافیوں کو سہولیات اور سامان فراہم کیا گیا، چند بڑے چینلز کے سوا 95 اے ماسک صحافیوں کو فراہم نہیں کئے گئے، ”اگرچہ ہمارے ادارے نے تو حفاظت کی تمام اشیاء ہمارے ضلعی دفاتر بھیج دی تھیں لیکن اکثریت محروم رہی۔ جب لوگوں کو اپنی حفاظت، صحت اور زندگی کے لیے گھروں میں رہنے کو کہا جا رہا تھا تو ہمیں کیمرہ مینوں اور فوٹوگرافروں کو فوٹیج اور تصاویر کے لیے اسی خطرے کے میدان میں بھیجا جاتا تھا۔ ہم ان ہسپتالوں میں گئے جو کورونا کے لیے مختص تھے اور بار بار گئے، کرونا کے مریضوں سے ملے، ڈاکٹرز سے ملے، ریکاڈنگ کی، ویڈیوز بنائیں، فوٹیج بنائی، انٹرویوز کیے اور اپنے فرائض سرانجام دیئے جس کے لیے تمام صحافیوں کو ڈاکٹرز جیسی مکمل 95 اے کٹس کی ضرورت تھی جو کہ سب کو نہیں ملیں۔ اس دوران کرونا کا شکار ہونے والوں کو ادروں نے نظرانداز کر دیا، ان کی خدمات کا انہیں اجر تو کیا تعریفی کلمات بھی نہیں کہے گئے، کورونا وباء کے دوران سیفٹی اور سیکورٹی سے محروم رہنے والے صحافیوں کے بیوی بچوں نے بھی بہت تکالیف برداشت کیں اور ان کی وجہ سے 20 صحافیوں کی بیگمات بھی کوویڈ 19 کا شکار ہوئیں۔

عید سے دو روز پہلے جب رات 12 بجے کی نائٹ ڈیوٹی کر کے گھر لوٹا تو جسم میں شدید درد تھا اور بخار بھی محسوس ہو رہا تھا۔ سوچا صبح تک انتظار کرتا ہوں اور صبح پرائیویٹ ڈاکٹر سے چیک اپ کرا لوں گا۔ بخار 102 سے 103 ہو گیا، پیناڈال لے لی، صبح ڈاکٹر کو دکھایا تو اس نے انجکشن لگا دیا۔ گھر آیا تو بچے تو بہت پریشان تھے، وہ سب تو گھرون میں تھے سب کچھ بند تھا لیکن میں ڈیوٹی پر جاتا اور بیماری لے کر گھر آ گیا، جب تک مجھے پتا چلا کہ میں کوویڈ پازیٹو ہوں تب تک میرے دو بچوں کو بھی بخار ہونا شروع ہو گیا، میں تو قرنطینہ میں چلا گیا لیکن میری ساری فیملی بیمار پڑ گئی۔ میری بیوی نفسیاتی مسائل کے گھیرے میں آ گئی، اسے انزائٹی ہو گئی۔ اس کا کورونا رزلٹ نیگٹو آنے کے باوجود اس میں کرونا کے مرض کی تمام علامات ظاہر ہونے لگیں۔ میں اپنی بیماری کے ساتھ ساتھ اس کا بھی علاج کراتا رہا سارا۔

میرے بچے کہتے کہ ماما کو ہسپتال نا لے کر جائیں، وہ انہیں داخل کر لیں گے اور وہ مر جائے گی۔ ساری فیملی کے علاج پر ایک لاکھ روپے خرچ آیا جو ابھی تک ہم پر قرض ہے اور ہم چکا نہیں پا رہے۔ میں تو 18 روز کے بعد صحت یاب ہو گیا لیکن میری بیوی اور بچوں پر آج بھی انزائٹی کے حملے ہوتے ہیں اور وہ اس دن کے بعد سے نفسیاتی مسائل سے نکل نہیں سکے، میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ میں صحافی نا ہوتا تو گھر پر ہوتا، چھٹیاں ہوتیں اور میں اپنے بیوی بچوں کو اس مرض سے جو ان کو میری وجہ سے لگا محفو ظ رکھ پاتا۔”

خاتون صحافی انیلہ شاہین نے کہا کہ صحافیوں نے کورونا کے مریضوں اور جاں بحق ہونے والوں کے مناظر بہت قریب سے دیکھے ہیں اور پشاور کے تمام 300 صحافی اس خوفناک اور خطرناک بیماری کے خوف میں مبتلا ہوئے اور بہت زیادہ نفسیاتی مسائل میں گھرے رہے اور اپنے طور پر ہی اپنا علاج کراتے رہے جس میں ان کے گھر والوں نے انہیں سپورٹ کیا جبکہ اس حوالے سے یونین یا پریس کلب یا ادروں نے کوئی ایک ٹریننگ بھی نہیں کروائی کہ جس میں مینٹل ہیلتھ یا ذہنی صحت سے متعلق صحافیوں کو تربیت دی گئی ہو یا پھر وہ ٹراما سے کیسے نکلیں اس کی کوئی ٹریننگ دی گئی ہو ایسا کچھ نہیں ہوا جس سے صحافی کافی نفسیاتی مسائل کا شکار رہے۔

”میں نے جیسے ہی گھر کا گیٹ کھولا تو میرے شوہر بھاگ کر گھر کی دوسری منزل پر چلے گئے اور کہنے لگے کہ مجھ سے دور ہو جاؤ اور بچوں کو بھی دور کر لو، میرے نزدیک کوئی نا آئے۔ تم میرے کپڑوں کو ہاتھ بھی نا لگاؤ، مجھے اکیلا چھوڑ دو، مجھے کرونا ہو گیا ہو گا، میں ایک شخص کا انٹرویو ریکارڈ کر کے آیا ہوں اور اسے کورونا تھا مجھے اور اسے پتا نہیں تھا، زیادہ علامات نہیں تھیں اور مجھے بھی کورونا ہو جائے گا اور تم سب کو بھی ہو جائے گا۔ وہ اوپر چھت پر کھڑے پریشانی میں بولے جا رہے تھے اور میں انہیں تسلی دیتی رہی۔

بچوں نے ان کی یہ کیفیت دیکھ کر رونا شروع کر دیا۔ ان سارے حالات کو دیکھ کر میں بھی خود پر قابو نا رکھ سکی اور رونا شروع ہو گئی، گھر میں ایک خوف اور دکھ کا سماں تھا لیکن میں نے خود کو، گھر کو اور اپنے شوہر کو سنبھالا۔ لیکن وہ لمحات بہت تکلیف دہ تھے جنہیں میں آج بھی نہیں بھول سکی۔” یہ کہنا تھا سینئر صحافی کی بیگم طاہرہ رضوان کا جو کرونا وباء کے دوران اپنے صحافی شوہر کی ڈیوٹی سے واپسی کی کیفیت بتا رہی تھیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button