1926 کا ایک دلچسپ واقعہ جو ٹی وی کی ایجاد کا باعث بنا
ڈاکٹر جمشید نظر
ٹیلی ویژن دو لفظوں کے مجموعہ سے بنا ہے: ٹیلی یونانی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے ”دور یا بعید ” جبکہ ویژن انگریزی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے ‘نظر یا دیکھنا۔’ اقوام متحدہ نے 21 نومبر 1996 ء کو پہلا عالمی ٹیلی ویژن فورم منعقد کیا جس میں دنیا بھر سے میڈیا کی سرکردہ شخصیات نے اقوام متحدہ کی سرپرستی میں ملاقات کی تاکہ بدلتی ہوئی دنیا میں ٹیلی ویژن کی بڑھتی ہوئی اہمیت پر تبادلہ خیال کیا جا سکے اور اس بات پر غور کیا جا سکے کہ ٹیلی ویژن کے ذریعے باہمی تعاون کو کس طرح بڑھایا جا سکتا ہے۔
چنانچہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے سب کی متفقہ رائے پر 21 نومبر کو عالمی ٹیلی ویژن ڈے کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا۔ تب سے ہر سال 21 نومبر کو ٹیلی ویژن کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔
ٹیلی ویژن کی ایجاد بھی ڈرامائی انداز میں ہوئی تھی۔ ایک ایسا دلچسپ واقعہ رونما ہوا کہ دنیا کو انٹرٹینمنٹ کا ذریعہ حاصل ہو گیا۔ سن 1926 کی بات ہے، سکاٹ لینڈ کا ایک سائنس دان جان لوگی بیئرڈ (John Logie Baired) سمندر کے کنارے چہل قدمی کر رہا تھا، وہ سمندر کی لہروں اور موسم سے لظف اندوز ہو رہا تھا کہ اچانک اسے گانے کی آواز سنائی دی۔ گانے کی آواز کے ساتھ سمندر کی لہروں کا منظر بڑا دلکش نظر آ رہا تھا لیکن جان کو اس بات کی حیرت بھی ہوئی کہ گانے کی آواز کہاں سے آ رہی ہے۔
جب اس نے آواز کی لہروں کا پیچھا کیا تو پتہ چلا کہ سمندر کے نزدیک ایک ہوٹل پر ریڈیو بج رہا تھا جس میں سے گانے کی آواز اسے سنائی دے رہی تھی۔ جان کو ریڈیو پر بجنے والے گانے سے زیادہ اس بات پر حیرت اور تجسس پیدا ہوا کہ ریڈیو پر بجنے والے گانے کی آواز کی لہریں اتنی دور اس تک کیسے پہنچ گئیں؟ اس بات سے اس نے اندازہ لگایا کہ ہوا کی لہریں آواز کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر رہی ہیں۔
جان سوچ میں پڑ گیا اور خیال کیا کہ اگر ہوا کی لہروں سے آواز ایک جگہ سے دوسری جگہ جا سکتی ہے تو پھر ان لہروں پر تصویر بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ جا سکتی ہے۔ جان لوگی کو چونکہ فوٹو گرافی کا شوق تھا اور وہ کئی مرتبہ تصویروں اور بجلی کی تاروں پر تجربہ بھی کر چکا تھا، اس نے ہوا کی لہروں میں چھپے گہرے راز کو بھانپتے ہوئے ارادہ کیا کہ وہ ان لہروں کے ذریعے تصویریں بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیجنے کا تجربہ کرے گا۔
چنانچہ جان لوگی نے اپنے تجربے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کچھ چیزیں اکٹھی کیں، اس نے ایک شیشے کا ایک بڑاصندوق، کپڑے سلائی کرنے والی سوئیاں، بسکٹ کا ایک ڈبہ، سائیکل کے لیمپ کا شیشہ، کچھ بیٹریاں، بجلی کے تار اور موم اکٹھا کیا اور ایک کمرے میں بند ہو کر تجربہ شروع کر دیا۔ کمرے کی ایک دیوار کے ساتھ اس نے ایک پردہ لگا رکھا تھا جس پر وہ تصویر ابھارنا چاہتا تھا۔
جان لوگی اپنے تجربے میں بے شمار مرتبہ ناکام ہوا لیکن وہ مصمم ارادے کے ساتھ تجربات کرتا رہا۔ بالآخر اس کی محنت رنگ لے آئی اور وہ پردے پر حرکت کرتی تصویر ظاہر کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ پردے پر تصویر ظاہر کرنے کا تجربہ کامیاب ہو گیا لیکن تصویر ابھی بھی کچھ دھندلی سی نظر آتی تھی، جان لوئی نے تصویر کو مزید نمایاں کرنے کے لئے روشنی کو زیادہ کرنے کا سوچا، اس نے روشنی کو تیز کرنے کے لئے ایک ہزار بیٹریاں ایک ساتھ استعمال کیں تو پردے پر تصویر نمایاں طور پر نظر آنے لگی۔
جان لوگی کا تجربہ مکمل طور پر کامیاب ہو چکا تھا، اس نے دنیا کے لئے ایک انٹرٹینمنٹ بکس ”ٹی وی” ایجاد کر لیا تھا۔ اس نئی ایجاد کا ہر طرف چرچا ہو گیا، برطانیہ کے اخبارات کے فرنٹ صفحات پر جان لوگی کی حیرت انگیز ایجاد کی داستان اور ایجاد کردہ ” ٹی وی” کی بڑی بڑی تصاویر شائع ہوئیں۔ ہر کوئی حیرت میں مبتلا تھا کہ کس طرح ایک بے جان ” ٹی وی” میں حرکت کرتی تصویریں نظر آ سکتی ہیں۔
30 دسمبر 1929 کو برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی لندن نے جان لوگی کے بنائے ہوئے ٹی وی پر اپنا پہلا پروگرام نشر کیا۔ جان لوگی کی ایجاد پر دیگر سائنس دانوں اور ماہرین نے بھی تجربات کرنا شروع کر دیئے اور اس میں بہتری لاتے گئے۔
1937ء میں بی بی سی کو نہ جانے کیا سوجھی انہوں نے اپنے پروگراموں کے حوالے سے معاہدہ ٹی وی کے موجد جان لوگی کے ساتھ کرنے کی بجائے کسی اور کمپنی سے کر لیا۔ جان لوگی کو اس معاہدہ پر بہت دکھ ہوا لیکن اسے یہ اندازہ نہ تھا کہ اس کا ایجاد کردہ ٹی وی اس کا نام زندہ رکھے گا۔
آج دنیا جان لوگی کو ٹی وی کے موجد کے طور پر یاد رکھے ہوئے ہے کیونکہ جان لوگی کی اس ایجاد نے دنیا کو بدل کر رکھ دیا۔ انٹرنیٹ، موبائل اور سوشل میڈیا کے دور میں اب بھی ٹی وی کی نشریات دنیا بھر میں بڑے شوق سے دیکھی جاتی ہیں۔