محمد زادہ کا آخری پوسٹ; ریاستی اداروں اور ملاکنڈ کے عوام سنو !
تحریر: محمد بلال یاسر
مالاکنڈ کے علاقے سخاکوٹ میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے مقامی صحافی و سوشل ورکر محمدزادہ آگرہ کو قتل کر دیا ہے۔
گذشتہ روز قتل ہونے والے سٹیزن جرنلسٹ اور سوشل ورکر محمد زادہ آگرہ وال نے 12 اکتوبر 2021 کو اپنے فیس بک پوسٹ میں کچھ یوں خبردار کیا ہے۔ ریاستی اداروں ، ملاکنڈ کے عوام سنو !!!
ڈپٹی کمشنر ملاکنڈ الطاف شیخ میرے مخالفین اور سیاسی مداریوں کی منصوبہ بندی اور ناپاک سازش کے تحت مجھے ہراساں کرنے کی مذموم کوشش کررہا ہے۔
ڈپٹی کمشنر ملاکنڈ سرکاری اختیارات اور اتھارٹی کو ناجائز استعمال کرتے ہوئے مجھے گرفتار کرنے کیلئے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قانون کو اس ناپاک سازش کو عملی جامہ پہنانے کیلئے بنیاد بنانے کی مذموم کوشش بھی کررہا ہے۔
وارننگ! اگر اس منصوبہ بندی اور ناپاک سازش پر ناجائز عملدرآمد کے نتیجے میں مجھے کچھ بھی ہوا تو میری اور میرے خاندان کی تمام تر دعویداری ڈپٹی کمشنر ملاکنڈ الطاف شیخ پر ہوگی۔
محمد زادہ کافی عرصے سے مسلسل منشیات فروشوں اور دیگر جرائم پیشہ افراد کے خلاف سرگرم عمل تھے اکتوبر کے مہینے میں ڈپٹی کمشنر کو کھلی کچہری میں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کمشنر کے کھلی کچہری میں منشیات فروشوں کے خلاف سب حقائق سامنے لاتے ہیں کھلی کچہری میں منشیات کے کرتوتوں کو کریدا جاتا ہے مگر ہوتا کیا ہے نہ تو کمشنر اور نہ ہی ملاکنڈ لیویز اور دیگر زمہ داران حرکت میں آتے ہیں اس کا مطلب ہے کہ اعلیٰ عہدیداران ان کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ اس جرات مندانہ خطاب کے بعد محمد زادہ کو خطرات لاحق ہونا شروع ہوگئے۔
محمد زادہ کون تھے ؟
28 سالہ محمد ذادہ اگروال ضلع ملاکنڈ کے تحصیل سوات رانیزٸ (بٹ خیلہ) کے مشہور قباٸلی علاقے آگرہ سے تعلق ہونے کے سبب آگرہوال کے نام سے مشہور تھے۔ آپ کا تعلق اتمان خیل قبیلے کی سیکشن شموزٸ عمرخیل سے تھا لیکن ان کے باپ دادا وہاں سے نقل مکانی کرکے سخاکوٹ کالج کالونی میں رہائش پذیر ہوگئے۔ وہاں پر ان کے والد خان ذادہ نے جیولری کا پیشہ اختیار کیا۔ محمد زادہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد صحافت کے پیشے سے منسلک ہو گئے۔
محمدزادہ آگرہ وال کو پیر و منگل کی درمیانی شب 8 بجے اپنے ہی گھر سے تھوڑے فاصلے پر نامعلوم موٹر ساٸیکل سواروں نے گولی مار کر شہید کردیا۔
محمد زادہ نے آئی آر میں ماسٹر کرنے کے بعد رضاکارانہ سماجی خدمات کا آغاز کیا تو منشیات کے خلاف علم بغاوت بلند کیا کیونکہ ان کے دو جواں سال کزن اس لعنت کے سبب زندگی گنوا چکے تھے۔ چند ہفتے قبل ڈپٹی کمشنر کے سامنے کھلی کجھری میں منشیات فروشوں اور مافیا کے خلاف موثر آواز اٹھاٸی تھی، اس سے پہلے درگئی ہسپتال میں ڈیلیوری کیس کے لیے آواز اٹھانے اور احتجاج کرنے پر ایک ہفتہ جیل کاٹ چکے تھے۔ محمد زادہ انسانی حقوق اور امن کے لٸے کام کرنے والے مقامی اور علاقاٸی تنظیموں کے سرگرم کارکن اور ملاکنڈ ڈویژن کے انٹرنیشنل ہیومن رائٹس کے صدر بھی تھے۔
محمد زادہ اگرہ وال نے ڈرگ مافیا اور کرپٹ انتظامیہ کے خلاف اواز اٹھاکر علم حق بلند کیا ہوا تھا۔ محمد زادہ منشیات کے عادی لوگوں کے مفت علاج کے لیے تنظیم بنا چکا تھا۔ منشیات کے خلاف معاشرتی ذمہ داری پوری کر رہا تھا ۔ وہ معاشرے سے اس ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینک کے لیے دیدہ دلیری سے لڑ رہا تھا۔ محمدزادہ کی کسی سے ذاتی دشمنی نہیں تھی بس انکی دشمنی سماج دشمنوں عناصر اور سماج دشمن چند کرپٹ انتظامی عہدیداروں سے تھی جس کی وجہ سے کبھی جیل تو حوالات میں پابند سلاسل کرایا گیا۔
محمد زادہ کو خاموش کرانے کے لیے بار بار دبانے کی کوششیں کرائی گئی مگر دبا نہ سکے اور بلا آخر اسے جان سے مارکر اس کی آواز کو ہمیشہ کیلئے خاموش کردیا گیا۔
محمد زادہ نے جہاں پر بھی کسی غلط اور ناجائز کام کو دیکھا اسے روکنے کی کوشش کی خاص طور پر منشیات کے خلاف ان کے خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ منشیات کی روک تھام کیلئے انہوں نے ساتھیوں سے ملکر ایک تنظیم بھی بنا رکھی تھی وہ سوشل میڈیا پر اسی وجہ سے اتنے مشہور تھے کہ قوم اتمان خیل کا اور ملاکنڈ ڈویژن کا بچہ بچہ اسے جانتا تھا۔ وہ اس قدر منشیات کے خلاف تھے کہ ضلع ملاکنڈ میں جہاں بھی کھلی کچہری ہوتی وہ سر عام ضلع ملاکنڈ کی انتظامیہ کو دوٹوک الفاظ میں اس کا ذمہ دار ٹہراتے تھے انہوں نے کبھی بھی یہ نہیں سوچا کہ غلط کام کرنے والے کا تعلق کونسی پارٹی سے ہے ۔وہ ایک نڈر اور باصلاحیت نوجوان صحافی تھے ۔محمد زادہ کی یہ جدوجہد کالی بھیڑیوں سے نہیں برداشت نہ ہوسکی اور آخر کار اسے اپنے منحوس ارادوں کا نشانہ بنا کر ان کا سینہ گولیوں سے چھلنی کر دیا۔
حکومت سے درخواست ہے کہ ان کے قاتلوں کو قرارواقعی سزا دے اور معاشرے کے لٸے لڑنے والے اس نڈر بے لوث خوبورو تعلیم یافتہ نوجوان کے لٸے حکومتی ایوارڈ کا اعلان کرے۔