تعلیم

سکولوں میں ویکسنیشن کا عمل جاری، طالبات اور اساتذہ کو کن مشکلات کا سامنا ہے؟

سلمیٰ جہانگیر

"سکول کے اوپر سکول کی بجائے ہسپتال لکھ دیں کیونکہ ہر دوسرے تیسرے دن بچوں کو کبھی ویکسین لگوائی جاتی ہیں کبھی کسی بیماری کی گولیاں دی جاتی ہیں اور کبھی خسرے کے ٹیکے، آخر یہ بچے پڑیں گے کب جب سارا دن محکمہ صحت والے نت نئے تجربے بچوں پر کرتے ہیں تو انکی پڑھائی کا ہوگا کیا ؟ کیونکہ پچھلے دو سال تو کورونا کی نظر ہو چکے ہیں اور اگر بچوں کو ویکسین لگا بھی دی جائے تو انکو کیا فائدہ ہوگا کیونکہ شناختی کارڈ تو ہے نہیں ان بچوں کا تو سرٹیفیکیٹ کیسے ملے گا؟ یہ کہنا ہے شگفتہ کا جنکی دو بیٹیاں سرکاری سکول میں زیر تعلیم ہیں.

این سی او سی کے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق پورے ملک میں 12سال سے 18 سال تک کے تمام طلباء و طالبات کو کورونا سے بچاؤ کے ویکسین لگانے کا آغاز ہوچکا ہے جسکے تحت تمام تر سرکاری سکولوں سے طلباء و طالبات کا ڈیٹا طلب کیا گیا تاکہ محکمہ صحت کی طرف سے موبائل ٹیمیں تمام سکولوں میں جا کر طلباء و طالبات کو کورونا سے بچاؤ کے ویکسین لگوائیں.

ضلع پشاور کے محکمہ تعلیم زنانہ کے مطابق اس وقت ضلع میں موجود سرکاری گرلز مڈل ,ہائی, اور ہائیر سیکنڈری سکولوں میں تقریباً 48007 طالبات کی عمر 12 سے 18 سال ہے. 28 اکتوبر2021 تک 22806 طالبات کو ویکسینیشن ہو چکی ہے جبکہ باقی25201 طالبات کو ویکسینیشن کا مرحلہ جاری ہے.

گورنمنٹ گرلز ہائی سکول کی طالبہ خدیجہ کا کہنا ہے کہ سکول میں جب کلاس ٹیچر نے بتایا کہ کورونا سے بچاؤ کے ویکسین والے آئینگے تو گھر جا کر اس نے اپنے ماں باپ سے اس کے متعلق بات کی اور اسکو ویکسین لگانے کی اجازت مل گئی لیکن اسکا فارم ب نہیں بنا جسکی وجہ سے اب اسکو ویکسین نہیں لگا رہے اور جنکو ویکسین نہیں لگی انکو سکول کی طرف سے سکول چھوڑنے کا سرٹیفکیٹ دیا جاۓ گا. خدیجہ نے کہا اسکو پڑھائی کا بہت شوق ہے اور ویکسین لگانے پر بھی پابندی نہیں لیکن جب تک فارم ب نہیں بنے گا اور گھر میں رہے گی تو اسکی پڑھائی کا حرج ہوگا.

دوسری طرف گورنمنٹ گرلز ہائی سکول کی استانی مس نایاب کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ انہوں نے طالبات کو سکول آنے سے منع کیا ہے لیکن والدین کو بار بار کہا جا رہا ہے کہ اپنے بچوں کا فارم ب جلد از جلد بنائیں تاکہ انکو بروقت کورونا سے بچاؤ کےویکسین لگاۓ جائیں.یاسمین بی بی نے بتایا کہ اسکی بیٹی کا فارم ب اس لیے جلدی نہیں بن سکتا کیونکہ اسکا شوہر کراچی میں محنت مزدوری کرتا ہے اور اسکا شناختی کارڈ ایکسپائر ہو چکا ہے جب تک وہ دوبارہ نہیں بنے گا بیٹی کا فارم ب بننا مشکل ہے.

حمیرا جو کہ جماعت ہفتم کی طالبہ ہے اسکی والدہ نے بتایا کہ انکا تعلق خیبر پختونخوا کے علاقے دیر سے ہے اسکا خاندان پچھلے چند برسوں سے پشاور میں مقیم ہیں، حمیرا کی والدہ نے بتایا کہ وہ بیوہ ہے اور اسکا شناختی کارڈ بلاک ہے، شناختی کارڈ بلاک ہونے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ کسی کی شکایت کرنے پر ,کہ اسکا تعلق افغانستان سے ہے,شناختی کارڈ بلاک کیا گیا ہے اور اب وہ نادرہ دفتر کے چکر کاٹ رہی ہیں اور اسکا مسئلہ حل نہیں ہو رہا.خاتون نے مزید بتایا کہ جب تک اسکا شناختی کارڈ نہیں بنتا تب تک اسکی بیٹی کا فارم ب بھی نہیں بن سکتا.

مس نایاب نے مزید بتایا کہ اس وقت انکے سکول میں 618 طالبات زیر تعلیم ہیں جن میں 12 سے 18 سال تک طالبات کی تعداد 555 ہے مرحلہ وارتقریباً 521 بچیوں کو کورونا ویکسین کی خوراک دی جا چکی ہے جبکہ باقی 34 طالبات کو بھی لگائی جائے گی۔ مس نایاب نے بتایا کہ 29 اکتوبر 2021 کو 50 طالبات کو کورونا کی دوسری خوراک بھی لگائی گئی ہے جبکہ باق طالبات کو مرحلی وار لگائی جاۓ گی.

ڈی ایچ او پشاور کے مطابق اس وقت ضلع پشاور میں 100 سے 150 تک موبائل ہیلتھ ٹیمیں روزانہ سکولوں کا دورہ کرتی ہیں اور ہر موبائیل ٹیم تقریباً 100 تک طلباء کو روزانہ کی بنیاد پرویکسین لگاتی ہیں اور وہ ڈیٹا پھر محکمہ تعلیم کو فراہم کیا جاتا ہے.

فرزانہ کا تعلق پشاور کے علاقے ناگمان سے ہے اور انکا کہنا ہے کہ حکومت کے اس فیصلے سے کوئی بھی خوش نہیں ہے کہ زبردستی کورونا سے بچاؤ کے ویکسین لگائےجا رہے ہیں۔ انکے مطابق اسکی بیٹی آٹھویں جماعت کی طالبہ ہے. وہ اپنے گھر والوں کی مرضی کے خلاف اپنی بچی کو سکول بھیجتی ہیں کیونکہ فرزانہ چاہتی ہے کہ اسکی بیٹی میٹرک کر لیں. اس نے کہا کہ اب اسکا خواب پورا ہوتا نظر نہیں آ رہا کیونکہ حکومت نے ویکسین لگانے کی شرط رکھی ہے اور ویکسین لگانے سے لڑکیوں میں بانجھ پن کی بیماری پیدا ہوتی ہے تو مجبوراً اسے بیٹی کی تعلیم کا سلسلہ ختم کرنا ہوگا کیونکہ تعلیم کے بغیر تو زندگی چل سکتی ہے لیکن اولاد نا ہونے کی وجہ سے معاشرے کے لوگوں کی بہت سی باتوں کا سامنا کرنا ہوگا. اور زندگی گزارنا پھر مشکل ہو جاتا ہے.
فرزانہ نے مزید بتایا کہ اللہ نے جتنی عمر لکھی ہے اتنا وقت اس دنیا میں گزارنا ہے کورونا سے کوئی مرے یا نا مرے لیکن بے اولادی ضرور ہوگی.
لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور کے ڈاکٹر زبیر بھٹی جوکورونا انچارج ہے ,کا کہنا ہے کہ کورونا ویکسین جن میں سائنوفارم, فائزر اور سائنوویک شامل ہیں کا کوئی سائیڈ ایفیکٹ نہیں ہے. سوائے معمولی سر درد یا بخار کے اور بخار بھی بعض لوگوں کو نہیں ہوتا.

تعلیمی اداروں میں اس وقت تمام طلباء اور طالبات کو فائزر ویکسین لگانے کا عمل جاری ہے. اسلم خان کا تعلق چارسدہ سے ہے انہوں نے بتایا کہ” میرے بیٹے کو ہفتہ کے روزسکول سے بستے سمیت گھرواپس بھیج دیا کیونکہ اس کے بیٹے نے ویکسین نہیں لگوائی، ‘ میرا ایک ہی بیٹا ہے اور میں نہیں چاہتا کہ یہ اپاہج ہو جاۓ میں چاہتا ہوں میرا بیٹا بہت پڑھ لکھ لیں اور بڑا آدمی بنے.” اسلم خان کے مطابق کورونا ویکسین غیر ملکیوں کی چال ہے جس سے وہ انکے بچوں کو اپاہج بنانا چاہتے ہیں۔ اسلم خان نے بتایا کہ جس طرح اور لوگوں نے جعلی سرٹیفیکیٹ بنایا ہے وہ اپنے بیٹے کے لیے بنا لےگا.

دوسری طرف حمیداللہ جان نامی استاد کا کہنا ہے کہ ویکسین لگانے کا عمل جب سے سکولوں میں شروع ہوا ہے انکو والدین کی طرف سے مختلف رویوں کا سامنا ہے. ایک طرف حکومت کی طرف سے حکم نامہ جاری ہوا ہے کہ جن بچوں نے 31 اکتوبر 2021 تک ویکسین نا کروائی انکو سکول میں تدریسی عمل کے لیے اجازت نہیں ہوگی جبکہ دوسری جانب کچھ والدین ان پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ اگر انکے بچوں کو مستقبل میں بھی کسی تکلیف کی شکایت ہوئی تو اسکی ذمہ داری اساتذہ پر ہوگی. انہوں نے بتایا کہ اکتوبر اور نومبر کے آخری ہفتوں کو ویکسینشن ہفتے کے طور پر سکولوں میں منایا جاۓ گا.

اگر دیکھا جاۓ تو جب کبھی بھی کسی ایسی وبا کا سامنا ہوا ہے تو لوگوں کے مختلف رویے سامنے آئے ہیں. پہلے پولیو قطروں پر مختلف لوگوں کی مختلف رائے تھی اور اب کورونا ویکسین کے حوالے سے ملی جلی باتوں کا سامنا ہے
جبکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ ویکسینیشن کا عمل جب سے شروع ہوا ہے تو کورونا کیسز میں کمی سامنے آئی ہے. انکے مطابق ہر دوا کا کوئی نا کوئی سائیڈ ایفیکٹ ہوتا ہے لیکن اسکا یہ مطلب نہیں کہ بات اپاہج پن, بے اولادی یا کسی اور بیماری تک پہنچ جائیں این سی او سی کے مطابق 30 اکتوبر 2021 تک ملک میں کورونا مثبت کیسز کی تعداد 1.44 فیصد رہی.

علاقے کے ناظم میاں اعتبار گل نے بتایا کہ پولیو کے حوالے سے انہوں نے لوگوں میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے گھر گھر مہم بھی چلائی ہےکیونکہ جب بھی کبھی علاقے کے لوگوں نے کسی بھی قسم کی شکایت کی ہے تو محکمہ صحت نے علاقے کے مشر, ناظم یا ملکان کی مدد حاصل کی ہے لیکن کورونا ویکسین کے حوالے سے ابھی تک محکمہ صحت کی طرف سے انکو کوئی ہدایات جاری نہیں ہوئی یا ان سے کسی قسم کی مدد نہیں مانگی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ جب بھی کبھی ضرورت پڑی تو اپنے علاقے میں گھرگھر مہم بھی چلائیں گے.

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button