صحت

خیبرپختونخوا میں اقلیتی برادری کورونا وبا سے کس طرح متاثر ہو رہی ہے ؟

کورونا وائرس نے جہاں دنیا بھر کے عوام کو بلا تفریق متاثر کیا تو وہاں اس وبا کی وجہ سے خیبرپختونخوا میں مقیم اقلیتی برادری( ہندو، سیکھ عیسائی ) بھی متاثر ہوئی جس میں زیادہ تر عیسائی برادری کے لوگ شامل ہیں۔

خیبرپختونخوا میں مقیم عیسائی برادری سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر لوگ سرکاری عمارتوں اور گلی محلوں میں صفائی کے کام سے وابستہ ہے اس لئے کورونا وائرس کے باعث لگنے والے لاک ڈاون میں انہیں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

عاصم مسیح گزشتہ بیس سالوں سے پشاور کے حیات آباد میں گلی محلوں کی صفائی کا کام کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وبا کے دوران وہ صبح آٹھ بجے سے لیکر دن دو بجے تک اپنے فرائض سرانجام دیتے رہے جبکہ اتوار کے دن بھی وہ اوور ٹائم میں ڈیوٹی کرتے تھے مگر ابھی تک انہیں اوور ٹائم کا معاوضہ ہی نہیں ملا۔

ان کے بقول اس دوران جب ہر جگہ لاک ڈاون نافذ تھا تب بھی ہم اپنی ڈیوٹی سر انجام دیتے تھے لیکن جب وبا زور پکڑنے لگی اور مہنگائی میں اضافہ ہوا اس دوران ہم انتہائی مالی مشکلات سے دوچار ہوئے تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ مہنگائی کی وجہ سے انکے معاشی حالات خراب ہونے لگے اور 20 ہزار کی تنخواہ میں انکا گزارہ کرنا مشکل ہوتا گیا ، یہاں تک کہ سودا سلف خریدنے کیلئے ادھار لینا پڑتا لیکن پھر بھی اس دوران کسی سرکاری یا غیر سرکاری ادارے نے انکی مدد کی۔

مسیحی برادری سے تعلق رکھنے اور صفائی کرنے والی ایک خاتون نجمہ مسیح نے ٹی این این کو بتایا کہ انکے ساتھ سرکاری سطح پر امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے اور جب بھی کوئی وبا آتی ہے تو اس دوران ہم سے زیادہ کام کرایا جاتا ہے۔

نجمہ کا کہنا ہے کہ وبا کے دوران انہیں پشاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی( پی ڈی اے) کی جانب سے کام کرنے کیلئے بوٹ دیئے تھے باقی ہمارے ساتھ کسی قسم کا کوئی تعاون نہیں کیا گیا۔

کورونا وبا کے دوران نہ صرف اقلیتی برادری کے عام لوگ بلکہ محکمہ صحت میں کام کرنے والے افراد بھی متاثر ہوئے تھے۔

حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کی ایک نرس رمشا جاوید نے ٹی این این کو بتایا کہ وہ خود کورونا وبا سے متاثر ہوئی تھی، جب سینے میں درد اور تکلیف بڑھنے لگا تو مجھے چھُٹی ملی لیکن مجھے کورونا تکلیف کا بذات خود احساس ہوا۔

رمشا جاوید کہتی ہے کہ اس دوران وہ عام لوگوں کو خود کو کورونا وبا سے محفوظ رکھنے کیلئے آگاہی مہم بھی چلا رہی تھی اور متاثرہ افراد کے ساتھ اپنی بیماری کے حوالے سے تجربات بھی شئیر کر رہی تھی کہ کیسے انہوں نے خود کو علاج اور پرہیز کے ذریعے محفوظ رکھا۔

کورونا وبا کے دوران اقلیتی برادری کو معاشی مسائل کے دوران خوراکی اشیاء کی کمی کا بھی سامنا ہوا تھا جس کے لئے برادری کے نوجوانوں نے باقاعدہ طور پر چندہ مہم چلائی تھی اور اکھٹے کئے گئے چندے کے ذریعے انہیں خوراکی اشیاء فراہم کی گئی تھی۔

سوات میں سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے سوشل ایکٹیویسٹ ہومی سنگھ کا کہنا ہے کہ جب کوویڈ-19 وبا پھیل گئی تو انہوں نے اپنی سوشل ورک کے دوران دیکھا کہ بیشتر اقلیتی برادری معاشی طور پر اتنے متاثر ہوئے تھے کہ انکے گھر میں فاقے شروع ہونے لگے جن میں سکھ، عیسائی او ہندو برادری شامل ہیں۔

کہتے ہیں کہ سب سے پہلے تو میں نے اپنی جیب خرچ سے اپنی استطاعت کے مطابق ان لوگوں کیلئے راشن خرید کر پہنچایا مگر پھر میں نے سوچا کہ شائد یہی صورتحال مسلمان برادری کے کچھ لوگوں کو بھی درپیش ہو تو اسکے لئے میں نے اپنی سکھ برادری کے مخیر حضرات سے بات کی جنہوں نے میری مدد کی او ایسے سینکڑوں گھرانے تھے جن کو ہم نے راشن دیا۔

انہوں نے بتایا کہ راشن تقسیم کرنے میں سب سے پہلے انہوں نے سکھ کمیونٹی کو فہرست میں رکھا پھر ہندو او عیسائیوں او بعد میں مسلمان برادری سے تعلق رکھنے والے بے بس افراد کو بھی راشن دیا۔

ہومی سنگھ کہتے ہیں کہ چونکہ یہ ایک عالمی وبا تھی اور اس وجہ سے پورا ملک اور بالخصوص خیبرپختونخوا کے لوگ معاشی طور پر زیادہ متاثر ہوئے تھے تو ہم نے انسانیت کی خدمت کی خاطر عوام کے ساتھ مدد کی۔

انہوں نے کہا کہ کورونا وبا کے دوران متاثرہ افراد سے لوگ اکثر کترا جاتے یا انکے خاندان کے لوگوں کے ساتھ انکی علاج کیلئے پیسے نہیں تھے تو اس دوران سکھ کمیونٹی میں ادویات کا کاروبار کرنے والے افراد نے انکے علاج میں میری مدد کی جس کی وجہ سے انکی صحت محفوظ ہوگئی۔

اس سٹوری کے لیے خادم آفریدی، سینا نعیم  اور نوید شہزاد نے معلومات فراہم کی ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button