مہنگائی کا طوفان، خودکشی پر مجبور عوام اور اپنے خان صاحب!
وصال احمد
آج کل وطنِ عزیز میں مہنگائی کی وجہ سے ہر بندہ پریشان اور دست بہ دعا ہے کہ کسی طرح اس حکومت سے چھٹکارا حاصل ہو جائے۔ ہم نے اپنے ملک میں کیا کچھ نہیں دیکھا، ظلم وبربریت ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے، یہاں پر ہم جتنے مظالم کا شکار ہوئے شائد اور کوئی نہیں ہوا ہو۔ اس کی دو وجوہات ہیں:
پہلی یہ کہ ہمارے لیڈرز بے حس اور نااہل ہیں جبکہ دوسری یہ کہ عوام کے اندر سوچنے کی صلاحیت نہیں کیونکہ جب نواز شریف کا دورِ حکومت تھا تو عمران خان معیشت کا رونا رو رہے تھے اور کنٹینرز پر چڑھ کر ببانگ دہل کہا کرتے تھے کہ نواز شریف نے کرپشن، ڈکیتی اور ملک کے ساتھ غداری کی ہے لیکن آج ہم دیکھ رہے ہیں آئی ایم ایف کا قرضہ ہم پر مزید چڑھ گیا ہے۔
ہم وہ قوم ہیں جو پستی کا شکار ہے، دنیا کہاں سے کہاں تک پہنچ چکی ہے اور ہم اب بھی مہنگائی کے خلاف باہر نکل کر احتجاج کرتے ہیں۔ ایک خبر تو یہ بھی ملی ہے کہ ایک بندہ نے مہنگائی کی وجہ سے خودکشی کر لی ہے۔ اگرچہ خودکشی حرام بھی ہے لیکن جس ملک کے اندر حکمرانانِ وقت بے حس ہو جائیں اور کھوپڑیوں کے اندر دماغ کام کرنا چھوڑ دے تو وہاں پر مسائل کیسے حل ہوں گے۔ شدید پریشانی و حیرت اس بات پر ہے کہ ہم ابھی تک مہنگائی کی دلدل سے کیوں نہیں نکلے ہیں، کیا ہمارے ہاں عظیم رہنماؤں نے کوششیں اس خاطر کی ہیں کہ ستر سال ملک پر ایسے حکمران مسلط رہیں جس کی وجہ سے ہر غریب بندہ پریشان ہو؟
پی ڈی ایم بنی، کئی پارٹیوں نے راہیں جدا کیں لیکن حکومت کے نمائندے کچھ بھی نہیں کہہ رہے اور نہ ہی مستعفی ہوتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ حکومت کے ان نمائندوں کو چاہیے کہ جن کے اندر اخلاص موجود ہو وہ عوام کے دکھ کا مداوا کریں اور اپنی منشا و مرضی کے مطابق فیصلے نہ کریں۔ ہمارے علاقے میں ایک دن جماعت اسلامی والے احتجاج کے لیے نکلے، دوسرے دن جمعیت علما اسلام والے نکلے اور پھر اے این پی یعنی کہ اپوزیشن کی تین پارٹیوں نے احتجاج کیا اس خاطر کہ ملک پر مسلط کیے گئے لوگوں سے چھٹکارہ حاصل کیا جا سکے۔
ان لوگوں پر رحم و کرم کیجئے جو ایک وقت کی روٹی پیدا کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ عوام ایک دوسرے کے لیے آسانیاں پیدا کرتے ہیں اور ہم الٹا چل کر ایک دوسرے کو گہرے کنویں میں ڈال دیتے ہیں۔ کل ایک بندے کے ساتھ ملا، انہوں نے مہنگائی کا رونا روتے ہوئے اپنا قصہ سنایا اور ساتھ یہ دعا بھی کی کہ اللہ تعالی عمران خان سے ہمیں چھٹکارا نصیب فرمائے۔ میں نے کہا بھئی آپ نے صبر کرنا ہے تو وہ مجھ پر برس پڑے، کہہ رہے تھے کہ ہمارے پاس دوا خریدنے کے پیسے نہیں ہیں، ہم بے حس ہیں اور ہم مجبور ہیں۔ وہ میرے ساتھ اکثر ملتے ہیں اور محبتوں سے رخصت بھی کرتے ہیں لیکن اس بار انہوں نے بڑی پریشانی ظاہر کی اور رخصت کیا۔ میں نے پوچھا کہ کیوں اتنے پریشان لگ رہے ہو اور رخصتی میں تو آپ بے تحاشہ پیار بھی دیتے ہو لیکن آج کیوں؟ انہوں نے بات نہ سنتے ہوئے ہاتھ ملایا اور مجھ سے رخصتی مانگ لی۔
ایک دن بعد کال کر کے کہنے لگے کہ بھئی آپ پریشان ہوں گے لیکن اس دن گھر پر کھانا ہی نہیں تھا اور ماں جی کہہ رہی تھیں کہ ہم کیا کھائیں گے؟ ایک طرف میں گھر کا خرچہ خود برداشت کرتا ہوں اور دوسری طرف مہنگائی کو دیکھتا ہوں تو یقین کریں کہ رونا آتا ہے اور ساتھ آنکھوں سے نکلتے ہوئے قطروں کو صاف کر کے عمران خان کو ڈھیر ساری بددعائیں دیتا ہوں۔ میں نے کہا مجھے کوئی پریشانی نہیں، مجھے پتہ ہے کہ بھوک تہذیب سکھاتی ہے اور آپ نے جو کچھ کہا تھا میں اس پر سوچ کر کے قلق میں مبتلا ہو جاتا ہوں اور خود کو کوسنے میں لگ جاتا ہوں۔
ملک کے اندر مہنگائی کا طوفان ہے اور ہر بندہ اس کوشش میں ہے کہ وہ چھٹکارا پائے لیکن حکومت نہ مستعفی ہو رہی ہے اور نہ ہی عوام کو ریلیف دے رہی ہے۔ آج میرا قلم بے لگام ہو کر انہی الفاظ کو اجازت دے رہا ہے وگرنہ میں لوگوں کے دکھ درد کو بیان کرنے کا پہلے اہل بھی نہیں ہوں، اگر ہوں بھی تو صرف لوگوں کے فائدہ کے لیے لکھتا ہوں تاکہ عوام کی داد رسی اور خدمت کی جائے۔
خان صاحب! آپ کے کھاتے میں بدعائیں جمع ہو رہی ہیں اور ہر گھر کے مصلی پر بیھٹی ماں رو رہی ہے اور کہتی ہے کہ ہمیں دو وقت کی روٹی مل جائے اور میرا شوہر یا بیٹا تھک نہ جائے لیکن حکومت کے نمائندوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی، الٹا ان لوگوں کو پریشانی کی حالت میں یوں چھوڑ دیتے ہیں کہ کوئی پرسان حال ہی نہیں اور عوام اپنے درد و تکالیف سے تنگ آ کر اپنی زندگیاں ختم کر رہے ہیں۔
اگر حالات نہیں بدلے اور عوام اور اپوزیشن اسی طرح اکٹھے ہو کر احتجاج کرتے رہے تو یہ سمجھیے کہ تاریخ کے اوراق سے آپ کا نام ہمیشہ ہمیشہ کے لیے وہاں ذکر ہو گا جہاں پر ڈاکو وغیرہ کے نام ہوں۔
دکھ کی بھی اک حد ہوتی ہے اور جب وہ اس حد کو پار کر دیتا ہے تو انسانوں کا ایک جم غفیر نکلتا ہے جس میں بے شمار آہیں ہوتی ہیں اور اللہ تعالی کو ایک مظلوم کی آواز اور آہ قبول ہوتی ہے۔
عوام کو یوں نہ چھوڑئیے، عوام پر رحم وکرم کر کے مہنگائی کو کنٹرول بھی کریں اور ساتھ پروگرامات منعقد کریں جن کی وجہ سے ملک کے ایک غریب انسان کو فائدہ ہو اور وہ خوشی کے ساتھ اپنی زندگی بسر کرے۔