پشاور کے سب سے بڑے ٹرانسپورٹ منصوبے بی آر ٹی سے خواتین مطمئن
رانی عندلیب
پشاور شہر کوہاٹ روڈ کی رہائشی بیوہ خاتون روشن بی بی حیات آباد میں کسی کے گھر میں کام کرنے کے لیے روزانہ صبح 9 بجے جاتی ہیں۔ بی آر ٹی میں اس لیے سفر کرتی ہیں کہ کرایہ مناسب ہونے کے ساتھ ساتھ سفر بھی لوکل بسوں سے کافی آرام دہ ہے۔ کہتی ہیں کہ پشاور میں پہلی دفعہ بیرونی ممالک کے بسوں کے طرز پر بی آر ٹی کی بسیں بنی ہیں. جو کہ خوش آئند ہے تاہم خواتین کے لیے بی آر ٹی بس میں دس سیٹیں مختص ہیں جن پر صرف خواتین بیھٹتی ہیں اگر بس میں صرف مرد حضرات ہوں اور خاتون ایک بھی نہ ہو تب بھی مرد حضرات خواتین کی سیٹوں پر نہیں بیٹھتے، یہ سب سے اچھی بات ہے۔
خیال رہے کہ پرائیویٹ بسوں میں خواتین کی سیٹوں پر مرد بیٹھتے تھے اور اگر کوئی خاتون کسی مرد کو اٹھنے کا کہتی تو مرد نہ صرف اٹھتا نہیں بلکہ بات لڑائی جھگڑے تک پہنچ جاتی تھی۔
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں مدینہ کالونی پشاور سے تعلق رکھنے والی مریم نے بتایا کہ وہ ایک طالبہ ہیں اور ان کی طرح بہت سارے طالب علم یا طالبات بی آر ٹی کی سہولت سے استفادہ حاصل کرتے ہیں، پہلے جب وہ سکول کے لئے عام بس میں جاتی تھیں تو انہیں بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا، پندرہ یا بیس منٹ کے انتظار کے بعد بس آتی تھی جس میں اتنا رش ہوتا تھا کہ چڑھنے کے لیے بھی جگہ نہیں ملتی تھی، اس کے علاوہ جب بس میں سوار ہوتے تو مختلف قسم کے لوگ بس میں نزدیک کھڑے ہوتے، لڑکے ہوٹنگ کیا کرتے تھے اور جب کنڈیکٹر کو کرایہ کے لیے جتنے بھی پیسے دیتے بیس یا پچاس روپے تو زیادہ تر کنڈیکٹر بقایا واپس نہیں کرتے تھے اور اکثر سٹاپ سے آگے اتار دیتے تھے۔
بی آر ٹی کی سروس پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ اب ہر پانچ منٹ کے بعد بی آر ٹی بس آ جاتی ہے اور سب آسانی سے بس میں چڑھ جاتے ہیں، زو کارڈ کے ذریعے دس روپے کی کٹوتی سے اپنی منزل تک بہ آسانی پہنچ جاتے ہیں، کوئی کرایہ، کوئی لین دین نہیں۔
دوسری جانب بی آر ٹی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ بی آر ٹی سروس میں 2000 سے زیادہ لوگ کام کر رہے ہیں، تقریباً 190 ہزار سے زیادہ مسافر روزانہ سفر کرتے ہیں، اب خواتین کی نقل و حرکت 2 فیصد سے بڑھ کر 20 فیصد سے زیادہ ہو گئی ہے کیونکہ یہ بس سب کے لیے بہت محفوظ ہے، خواتین کے لیے بھی بہت محفوظ ہے، اس کے علاوہ سکول کے بچے بھی بہ آسانی اور حفاظت سے اپنے سکول تک پہنچ جاتے ہیں۔
ترجمان کے مطابق پہلے اسٹاپ تک 10 روپے اور پھر ہر 5 کلومیٹر کے فاصلے پر 5 روپے کا کرایہ بڑھایا جاتا ہے، مسافروں کو بسوں اور اسٹیشنوں میں مفت وائی فائی کی سہولت حاصل ہے، روزانہ 4 لاکھ سے زیادہ مسافر بی آر ٹی کے سفر سے مستفید ہوتے ہیں، 71 ارب روپے سے زیادہ لاگت کے اس منصوبے کے تحت 220 بسیں چلائی جا رہی ہیں جس سے روزانہ ساڑھے تین لاکھ سے زیادہ مسافر مستفید ہوتے ہیں، ”بہترین سہولتوں سے آراستہ جدید ائیرکنڈیشنڈ بسوں میں اب پشاور کے شہری سفر کر رہے ہیں جن میں انہیں وائی فائی اور موبائل چارجنگ سمیت دیگر سہولیات میسر ہیں، اس کے علاوہ معذور افراد اور ٹرانسجنڈر کے لیے بھی بسوں اور اسٹیشنز میں الگ جگہ مختص کی گئی ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ مسافروں کی معلومات کے لیے جدید نظام وضع کیا گیا ہے جب کہ پلیٹ فارمز پر مسافروں کی حفاظت اور موثر کارکردگی کے لیے خود کار دروازے نصب کیے گئے ہیں، بس اسٹیشنز میں مسافروں کی سہولت کے لیے خود کار برقی سیڑھیاں اور لفٹ کی سہولت بھی دستیاب ہے، چمکنی سے کارخانو مارکیٹ تک 27 کلومیٹر کا گھنٹوں میں طے ہونے والا سفر اب ذو ایکسپریس سے صرف 45 منٹ جب کہ بی آر ٹی اسٹاپنگ روٹ کے ذریعے ایک گھنٹے میں طے ہوتا ہے، ”اس کے علاوہ موبائل ایپ اور سفری کارڈ، ٹوکن سسٹم سے بھی کرایہ ادا کرنے کا سسٹم بھی موجود ہہے، بی آر ٹی میں سائیکل ٹریک اور سائیکلوں کے لیے 32 اسٹیشنز قائم کئے گئے ہیں، منصوبہ کے لیے ماحول دوست بسوں کا چناؤ کیا گیا ہے۔”
یاد رہے کہ پراجیکٹ بی آر ٹی کا افتتاح اکتوبر 2017 میں سابق وزیراعلی پرویز خٹک کے دور حکومت میں کیا گیا جس کی تکمیل کے لیے 6 ماہ کی ڈیڈ لائن دی گئی تھی تاہم اس دوران کم وبیش 8 مرتبہ منصوبے کے افتتاح کے حوالے سے ڈیڈ لائنز دی گئیں۔ منصوبے کی تاخیر کو میڈیا اور حزب اختلاف کی جانب سے کافی تنقید کا نشانہ بنایا گیا، منصوبے پر لاگت کا ابتدائی تخمیہ 49 ارب روپے لگایا گیا تھا تاہم منصوبے کے ڈیزائن میں نقائص کے باعث اس میں دو درجن سے زائد مرتبہ تبدیلیاں لائی گئیں جس سے اس کی لاگت 71 ارب روپے سے تجاوز کر گئی۔ اب چونکہ 13 اگست 2021 کو اس کا باقاعدہ افتتاح ہو چکا ہے، عام عوام سفری سہولیات سے کافی خوش بھی نظر آ رہے ہیں لیکن اس کے باوجود حزب اختلاف کی جماعتیں اس منصوبے کو ناکام تصور کرتی ہیں۔
بی ار ٹی بسیں بہت ہی محفوظ ہیں اور ہراسمنٹ کا کوئی ایشو نہیں، خواتین کے لئے اس میں الگ سیٹیں مختص ہیں، گرمیوں میں بی آر ٹی ٹی بس میں اے سی جبکہ گرمیوں میں ہیٹر لگا ہوتا ہے، اس کے علاوہ بی آر ٹی کی سروس میں وائی فائی انٹرنیٹ کی سہولت بھی موجود ہے۔
ثمینہ نامی بی آر ٹی سروس میں کام کرنے والی ایک خاتون اہلکار نے بتایا کہ ان کی تنخواہ 21 ہزار روپے ہے اور مہینے میں چار چھٹیاں ہوتی ہیں، ثمینہ اپنی ڈیوٹی بخوشی سر انجام دے رہی ہیں اور کہتی ہیں کہ یہ جاب بہت سیکور ہے، یونیفارم برقعے کی طرح ہوتا ہے یعنی پردے میں اپنی ڈیوٹی کرتی ہیں۔
پشاور کے آسیہ گیٹ کی رہائشی نرس، حنا نے بتایا کہ وہ ہسپتال آتے جاتے بی آر ٹی کی سہولت سے استفادہ حاصل کرتی ہیں، اس کی ایک وجہ وہ یہ بتاتی ہیں کہ بی آر ٹی بہت محفوظ ہے، اس کے علاوہ وقت پر ہسپتال پہنچ جاتی ہیں، پہلے وہ عام بس میں جاتی تھیں تو بہت رش ہوتا تھا، اگر رکشہ میں جاتیں تو آنے جانے کا زیادہ کرایہ لگتا، یوں اب بی آر ٹی وقت اور پیسوں کی بچت کا اہم ذریعہ ہے۔
روشن بی بی سمجھتی ہیں کہ منصوبے کے کامیاب یا ناکام سے انہیں کوئی غرض نہیں کہ لوگ ہر چیز پر اعتراض کرتے ہیں، اچھا ہو یا برا لوگ کیڑے ضرور نکالتے ہیں، عام غریب کو بی آر ٹی سے فائدہ ہے بس ان جیسے ان پڑھ لوگوں کیلئے اتنا ہی کافی ہے۔