”جرم بھائی یا باپ کرے اور بھگتے اُس کی بہن یا بیٹی، یہ زیادتی ہے”
رفاقت اللہ رزڑوال
پاکستان کی مرکزی شریعت کورٹ کے تین رُکنی بنچ نے سورہ کا عمل غیرقانونی قرار دیا، عدالت کا کہنا ہے کہ تنازعات کے حل کیلئے لڑکی مخالف فریق کو دینا اسلامی اصولوں کے منافی اور خلاف ہے۔ خواتین کے حقوق پر کام کرنے والے کارکن اور قانونی ماہرین نے فیصلے کو سراہا ہے۔ کہتے ہیں کہ اس فیصلے سے خواتین کسی حد تک محفوظ ہو جائیں گی۔
یہ فیصلہ شریعت کورٹ کے چیف جسٹس نور محمد مسکینزئی کی سربراہی میں تین رُکنی بنچ نے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران سنایا ہے۔ اخباری رپورٹس کے مطابق سکینہ بی بی نے سورہ کے خلاف درخواست دائر کی تھی جس پر عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ علمائے کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سورہ ایک غیراسلامی عمل ہے۔
درخواست گزار کا کہنا تھا کہ سورہ یا پنچائیت میں بے گناہ خواتین کو تنازعات کے حل کی غرض سے متاثرہ خاندان کے حوالے کرنا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، جرگہ یا پنچائیت کے ذریعے خواتین کو صلح کیلئے پیش کرنا غلط ہے اور یہاں پر کسی مسئلے حل کے تلافی کیلئے عام طور پر کم عمر لڑکیوں کو متاثرہ خاندان کے حوالے کر دی جاتی ہے۔
سورہ ایک ایسا عمل ہے جس میں فریقین کے درمیان جاری تنازعے میں جرم کے مرتکب خاندان متاثرہ خاندان کو کمسن بچی یا خاتون کو اُس کی اجازت کے بغیر دیتا ہے یا انہیں غلام کے طور پر حوالہ کیا جاتا ہے۔ اکثر ایسے واقعات قتل مقاتلے میں سامنے آتے ہیں اور سزا کا یہ فیصلہ جرگہ سناتا ہے۔
وفاقی شرعی عدالت کے معاون ڈاکٹر اسلم خاکی کا کہنا ہے کہ سورہ عمل سے انسانی بنیادی حقوق کی چار خلاف ورزیاں سرزد ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ جس لڑکی کو سورہ میں دیا جاتا ہے اس کے بنیادی حقوق اسے نہیں دیئے جاتے کیونکہ اُس خاتون کو قصوروار سمجھا جاتا ہے۔
دوسرا یہ کہ لڑکی کہ رضا کے بغیر اس کی شادی کسی شخص سے کرا دی جاتی ہے، تیسرا یہ کہ ایسے واقعات میں خاتون کو جہیز نہیں دیا جاتا اور چوتھا یہ کہ متاثرہ لڑکی اپنے طلاق یا خلع کیلئے قانونی راستے اختیار نہیں کر سکتی۔
خواتین کے حقوق کی سرگرم کارکن اور خیبر پختونخوا سے پاکستان پیپلز پارٹی کی رُکن صوبائی اسمبلی نگہت اورکزئی نے فیڈرل شریعت کورٹ کے فیصلے کو سراہا اور کہا کہ انہوں نے دو سال قبل اسمبلی میں سورہ کے خلاف قرارداد پیش کی تھی جس کو متفقہ طور پر اسمبلی نے پاس بھی کرایا تھا مگر آگے اس پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوا۔
ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں نگہت اورکزئی نے بتایا کہ سورہ ایک غیراسلامی، غیراخلاقی اور پختون روایات کے منافی عمل ہے اور سورہ کے بعد لڑکی نہ اپنے والدین کے گھر آ سکتی ہے اور نہ اسے میکے میں عزت سے رہنے دیا جاتا ہے۔
رُکن صوبائی اسمبلی نے کہا، "ایک خاتون کی حیثیت سے میں متاثرہ خواتین کا درد محسوس کرتی ہوں کہ وہ کس کرب سے گزرتی ہیں، جرم بھائی یا باپ کرے اور بھگتے اُس کی بہن یا بیٹی، یہ زیادتی ہے، گھر میں اسے سورہ کے نام سے بُلایا جاتا ہے حتٰی کے اگر اس کے بچے بھی پیدا ہو جائیں تو بھی یہ داغ نہیں مٹتا۔”
نگہت اورکزئی نے کہا کہ انہوں نے خواتین کے حقوق اور ان پر تشدد یا بچپن میں شادیوں کے خلاف اسمبلی سے کئی قراردیں منظور کروائی ہیں مگر حکومت اس قسم کے اقدامات کو توجہ نہیں دیتی، سورہ روکنے کیلئے جامع قانون سازی کرنی ہو گی ورنہ یہ چائلڈ میریج کی طرح ظلم اور گناہ ہو گا۔
پشاور میں خواتین کے حقوق پر کام کرنے والی کارکن خورشید بانو عدالتی فیصلے کو خوش آئند قرار دے رہی ہیں اور کہتی ہیں کہ اس فیصلے سے خواتین کے بنیادی حقوق محفوظ ہو جائیں گے، "سورہ میں دی گئی خاتون کی مشکلات دیکھنے کے قابل نہیں ہوتیں، میری ایک جاننے والی خاتون آٹھ سال پہلے سورہ میں دی گئی تھی مگر آج بھی سسرال والے اسے کم نظر سے دیکھتے ہیں، آج تک اسے اپنے باپ کے گھر جانے نہیں دیتے تو اس خاتون کا کیا حال ہو گا؟”
بانو کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پہلے سے خواتین کے خلاف ایک خاص سوچ پائی جاتی ہے لیکن اس فیصلے سے خواتین کو کچھ نہ کچھ تحفظ حاصل ہو جاے گا۔
پشاور ہائی کورٹ کی خاتون وکیل زینت محب کاکاخیل کا کہنا ہے کہ مذکورہ فیصلے میں وفاقی شریعت کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا ہے کہ ”بدلہ صلح” کی تعریف غلط کی جاتی ہے جبکہ اس کا واضح مطلب ‘دیت’ ہے جو کسی قتل کے جرم میں دی جاتی ہے، اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ کسی بچی کو صلح کے بدلے میں دیا جائے، "اسلامی احکامات کے مطابق شادی سے پہلے لڑکی کی مرضی پوچھی جائے گی جبکہ سورہ میں یہ نہیں ہوتا لہذا اس لحاظ سے میں اسے غیراسلامی بات سمجھتی ہوں، دوسری بات یہ ہے کہ متاثرہ خاندان اس بچی کو کبھی حق مہر نہیں دیتا اور نہ لڑکی خلع لے سکتی ہے۔”
متاثرہ خاتون قانونی راستہ کیسے اختیار کرے گی تو اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ جانتی ہیں کہ متاثرہ لڑکی گھر سے باہر نہیں نکل سکتی لیکن اگر کوئی لڑکی اس قسم کے حالات سے دوچار ہو جائے تو وہ آن لائن ایف آئی آر درج بھی کر سکتی ہے۔
زینت کاکاخیل کا کہنا ہے کہ پاکستان کی پارلیمنٹ نے 2004 میں کریمنل لاء میں ترمیم کی تھی جس میں سیکشن 310 (a) شامل کیا گیا، اس کے مطابق اگر کوئی بندہ کسی بچی کو سورہ میں دے یا لے رہا ہو ہو تو اس کو تین سے دس سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
انسانی حقوق پر کام کرنے والے خواتین کا مطالبہ ہے کہ فیڈرل شریعت کورٹ کی واضح تشریح کے بعد وفاقی اور صوبائی حکومتیں لڑکی کو سورہ میں دینے کے عمل کی روک تھام کیلئے اقدامات اُٹھائیں۔